کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 140
20.بچوں کو سب کے سامنے نہ سمجھائیں دوسروں کے سامنے بچے کو سمجھانا ایسا ہے کہ آپ اپنے بچے کی برائی دوسروں سے کر رہے ہیں ۔ کوشش کریں کہ بچے کو اکیلے میں سمجھائیں ۔ 21.بچے کی خامیوں کے بجائے خوبیوں کو تلاش کریں بچے کی ان خوبیوں کو تلاش کریں جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ اسے گھر میں ایسا ماحول فراہم کیجیے تاکہ وہ اسکول میں بھی اپنے اوپر اعتماد پید اکرسکے۔ 22. بچے کو مکمل آزادی نہ دیں اگر بچوں کو بالکل ہی ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور انہیں کسی بھی غلطی سے نہ روکا جائے تو اس سے بچہ کے بگڑنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنی ہر بات منوانے پر والدین کو مجبور کردیتا ہے۔ اس لئے بچوں کو اپنی خوشی اور نا خوشی کا بھی احساس دلاتے رہیں ۔ 23.بچے کی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کا رخ صحیح جانب موڑ دیں اگر آپ کا بچہ کسی نقصان دہ کام میں دلچسپی لیتا ہے تو بڑی ذہانت کے ساتھ اس کے اس رحجان کو کسی دوسری طرف مائل کرسکتے ہیں ۔ نفسیات کی زبان میں اس طریقے کو تصعید کہا جاتا ہے لہٰذا اگر آپ بچے کے رحجان کی تصدیق کرلیتے ہیں تو سمجھ لیجئے آپ نے بچے کو بگڑنے سے بچا لیا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بچہ کوئلے یا پنسل وغیرہ سے دیواروں اور فرنیچر کو خراب کرتا ہے تو اسے ایک بڑا کاغذ اوررنگین پنسل دے دیجئے اور جب وہ کاغذ پر اُلٹی سیدھی لکیریں کھینچے تو اس کی حوصلہ افزائی اور تعریف کیجئے۔ آپ کے بچے کی توجہ دیواریں خراب کرنے کی بجائے ڈرائنگ کی طرف مائل ہوجائے گی اور ہو سکتا ہے آپ کا یہی بچہ بڑا ہو کر تحریر وتصنیف میں ماہر بن جائے۔اس میں آپ کا نقصان بھی نہیں ہے اور بچہ بھی لکھائی کی صلاحیتوں کو بحال رکھ سکے گا۔