کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 136
بعض اوقات والدین بچوں پر ان کاموں (شرعی احکامات یا اخلاقی معاملات)کے لئے سختی کرتے ہیں جو اسلام نے بڑوں کے لئے بتائے ہیں ،حالانکہ بچہ تو ابھی ان باتوں کا مکلف ( ذمہ دار) ہی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں بچہ اسلام کو بوجھ سمجھ کر دور بھاگنے لگے گا۔ اسی طرح اگر چھوٹا بچہ نماز ، قرآن یا کوئی بھی کتاب پڑھ رہا ہو تو اسے غلطی کرنے پر اس طرح نہ ٹوکیں جیسے اس نے کوئی بہت بڑا گناہ کردیا بلکہ وہ اگر غلطی بھی کرتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے البتہ آپ اس پر غصہ کرکے ضرور گناہ گار ہوجائیں گے۔ 8. بچے سے دور رہنے کے بجائے اس کے ساتھ روزانہ وقت گزاریں اپنے بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ آپ اس کواور اس کےدوستوں کو جان سکیں ،اور وہ بھی آپ سے اپنے مسائل شیئر کرسکے۔آپ کتنے ہی مصروف ہوں اسے تھوڑا وقت ضرور دیں تاکہ اسے پتہ ہو کہ آپ اس کی مدد کے لیے موجود ہیں ۔وگرنہ بچہ احساس کمتری کا شکار ہوجائے گا نیز آپ سے اس کا صحیح تعلق نہیں بن سکے گا۔ 9. ہفتہ وار میٹنگ مت بھولئے بچوں کے ساتھ روزانہ وقت گزارنےکے ساتھ ساتھ ہر ہفتہ بعد ایک میٹنگ ضرور کیجئے جس میں بیوی بچوں کے ساتھ مشورہ کریں ، اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو جیسے ممکن ہوسکے اسے حل کیجئے، کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جو درحقیقت کوئی حیثیت نہیں رکھتےان کو حل کرنے کے بجائے آپ (والدین) بچوں کو اچھے انداز سے سمجھائیں کہ یہ فی الحال ہماری ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جسے فوری حل کیا جائے بلکہ کچھ اور اہم اورارجنٹ مسائل ہیں ان کا حل کرنا بہت ضروری اور نہایت مفید ہے۔ اس سے پچھلے مسائل حل ہوں گے اور آئندہ کی Future planning بھی بہترین ہوجائے گی۔ 10. بچے کو ( protection Over ) نہ دیں بلکہ اسے ذمہ دار بنائیے ہر وقت اپنی مرضی چلانے کے بجائے اپنے بچے کو آزادی دیجئے ،اسے اس کی پسند کے کام کرنے دیں