کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 130
نےاندھیرےمیں کھاناکھایا، میاں بیوی ایسے ظاہر کرتے رہے جیسے وہ بھی کھا رہے ہوں جبکہ وہ رات بھرخود بھوکےرہے صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس جب پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ رات تم دونوں میاں بیوی کے اس عمل کودیکھ کراللہ تعالیٰ مسکرادیا۔[1] اور اللہ تعالیٰ کایہ فرمان﴿وَیؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہمْ وَلَوْ كَانَ بِہمْ خَصَاصَةٌ﴾(سورہ حشر آیت 9) اس واقعہ کی عکاسی کرتا ہے قارئین کرام! اس واقعہ میں مذکورکام ہے توبہت سادہ اورآسان لیکن اصل اہمیت اسی کام کی ہوتی ہے جواللہ کی خوشنودی کاسبب بنے۔ اس واقعہ کوپڑھ کر ہمیں کچھ باتیں سمجھنی چاہئیں ۔ اللہ کے نزدیک عمل کی حیثیت اخلاص اوررضائے الٰہی کی امید سے ہوتی ہے ۔چاہے وہ عمل دنیاکی نظرمیں معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ دونوں میاں بیوی اندھیرےمیں ایک ایساکام کرتےہیں جس کادنیامیں کسی کوبھی علم نہیں لیکن اس عمل پراللہ نےمسکراکراپنی رضامندی ظاہر کی اوراس کی اطلاع اپنےنبی کےذریعہ پوری امت کودی۔ مہمان نوازی ہم بھی کرتےہیں بلکہ مہمانوں کےلیے کھانے کااہتمام اپنی مثال آپ ہوتاہے لیکن ذراسوچناچاہیےکہ کیاہماری اس دعوت کےبعد اللہ مسکرائے گا۔ کبھی اللہ کی رضاانسان چھوٹی چھوٹی چیزوں سےحاصل کرسکتاہے۔ جیساکہ ایک حدیث میں یہ بھی تذکرہ ملتاہے کہ ایک آدمی نے چلتےچلتےراستہ میں پڑےہوئے کانٹےیاٹہنی کوپاؤں کی ٹھوکرسےسائڈ پرکردیا’فشکراللہ لہ وغفرلہ‘اللہ نےاس بندہ کےاس عمل کی قدرکرتےہوئے اسےمعاف کردیا۔[2]
[1] صحیح مسلم : باب إکرام الضیف وفضل إیثارہ [2] صحیح البخاری ،کتاب المظالم والغصب،باب من أخذ الغصن ومایوذی الناس فی الطریق فرمی بہ:حدیث2472