کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 13
یعنی مبارک ناموں اوربلند و باکمال صفات میں کوئی اُس کا ہمسر و شریک نہیں ۔
اللہ کو اکیلا ماننا ’’ توحید ‘‘ کہلاتاہے اور اس کی تین بنیادی قسمیں ہیں :توحیدِ الوہیت ، توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء و صفات۔
توحیدِ الوہیت سے مراد:
عبادت اور عبادت کی جملہ اقسام ہیں ۔جس میں اللہ کا نہ ہی کوئی ہمسر ہے اور نہ ہی کوئی شریک۔ وہی اکیلا رکوع و سجود ، نذر و نیاز ، ذبح و قربانی کیے جانے کے لائق ہے ، اُسی کے سامنے ہاتھ بھی اٹھائے جائیں اور اُسی کے سامنے اُسی کے در پر سر بھی جھکایا جائے، اُسی پر توکل و بھروسہ کیا جائے ، اُسی سے محبّت کی جائے اور اُسی کی محبت کی وجہ سےکسی سے بھی محبّت کی جائے ، اُسی سے ڈرا جائے اور اُسی سے امیدیں وابسطہ کی جائیں ، اُسی کو پکارا جائےاور اُسی سے مدد مانگی جائے ان تمام امور میں کسی بھی غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھرایا جائے۔الغرض عبادت اوراس کی تمام اقسام، وہ دلی عبادت ہو یا جسمانی و بدنی عبادت یا مالی عبادت ہو،سب کی سب اُسی ایک اللہ کے ساتھ خاص ہیں لہٰذا ان میں اللہ کو ایک ماننا اور اللہ کے ساتھ کسی بھی غیر اللہ کو شریک نہ ٹھرانا ہی لفظ الجلالہ ’’ اللہ ‘‘ کا معنی بھی اور تقاضہ بھی اور یہی مقصدِ بعثتِ رسُل علیہم السلام بھی ہے ، یہی ایمان کا ضابطہ و معیار ہے اور اسی پر کل قیامت کے دن جنت و جہنم کے فیصلے ہوں گے۔ اسے خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔
توحیدِ ربوبیت سے مراد :
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا اِس پوری کائنات اور کائنات کی ہر مخلوق کا خالق و مالک و رازق ومدبِّر ہےکائنات کی ہر شئ و ذات اُس کی غلام و محتاج ہے اور وہ سب سے بے نیاز ہے ، وہی اکیلا داتا،