کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 127
دوسری قسم : خود کو خوبرو اور زیادہ خوبصورت بنانے کیلئے سرجری کرانا جس کا مقصد کسی عیب کا ازالہ نہیں بلکہ حسن وجمال میں اضافہ مقصود ہوتاہے ۔ تو یہ عمل حرام ہے کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے بال اکھاڑنے والی اور اکھڑوانے وا لی دوسرے کے بالوں کو جوڑنے والی اور جڑوانے والی، گودنے والی اور گدوانے والی عورت پر لعنت کی ہےکیونکہ اس میں اضافی خوبصورتی کا حصول مقصود ہوتاہے نہ کہ کسی عیب کا ازالہ ۔ رہی بات اس طالب علم کی جو پلاسٹک سرجری یا کاسمیٹک سرجری کا علم اپنے متعلقہ نصاب کے ضمن میں حاصل کرتاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں وہ اسے سیکھ سکتاہے لیکن اس کا استعمال صرف جائز اور حلال مواقع میں ہی کرے نہ کہ ناجائز میں ۔ بلکہ جو اس سے ناجائز اور حرام قسم کا علاج کرانےکیلئے آئے اسے بھی سمجھائے کہ وہ یہ کام نہ کرائے کیونکہ یہ حرام ہے اور بسا اوقات نصیحت جب کسی ڈاکٹر کی طرف سے آتی ہے تو وہ لوگوں کے دلوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے ۔‘‘[1] خلاصہ بحث : ٭ جسمانی عیب دور کرنے کے لئے پلاسٹک سرجری جائز ہے اور عیب سے مراد جسم میں پائی جانے والی ایسی صورت ہے جو معروف و معتاد اور عمومی تخلیقی کیفیت سے مختلف ہو، چاہے پیدائشی عیب ہو یا بعد میں پیدا ہواہو۔ ٭ جسمانی تکلیف کے ازالہ کے لئے ، اگر ڈاکٹر کا مشورہ ہو تو پلاسٹک سرجری جائز ہے۔ ٭ درازئ عمر کی وجہ سے طبعی طور پر انسان کی ظاہری حیثیت میں جو تغیر آتا ہے ، جیسے جھرّیوں کا پیدا ہوجانا وغیرہ ، ان کو ختم کرنے کے لئے پلاسٹک سرجری کرانا جائز نہیں ۔ ٭ ناک اور دوسرے اعضاء خلقی طور پر کم خوبصورت اور غیر متناسب ہوں ، مگر انسان کی عمومی معتاد
[1] فتاوى إسلامية ( 4 / 412 )