کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 121
دوسری دلیل : شریعت اسلامیہ کا قاعدہ کلیہ ہے کہ’الضرر یزال‘ نقصان کا ازالہ کیا جائے گا ۔ لہذا طبی طور پر اس طرح کے عیوب انسان کو حسی اور معنوی دو طرح کے نقصان سے دوچار کرتے ہیں جن کا ازالہ کرنا لازمی ہوتاہے تاکہ انسان کو روز مرہ کے کام سرانجام دینے میں کوئی رکاوٹ اور تکلیف پیش نہ آئے ۔ اور ایک اور بھی شرعی قاعدہ ہے کہ ’’ (الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة كانت أو خاصة) حاجت کو ضرورت کی جگہ پر رکھا جائے گا چاہے وہ عام ہو یا خاص ۔‘‘ تو یہاں پر بھی ایک تلف شدہ عضو کی ترمیم واصلاح ایک ایسی حاجت ہے جسے ضرورت کے مقام پر رکھ کر اس عمل کی اجازت دی جاسکتی ہے کیونکہ’الضرورات تبیح المحظورات ‘ ضرورتیں منع کردہ چیزوں کے جواز کی گنجائش پیدا کردیتی ہیں ۔ تیسری دلیل : اس سرجری کو ہم عام سرجری پر بھی قیاس کرسکتے ہیں کہ جس طرح ایک عام سرجری ضرورت وحاجت کے لحاظ سے جائز ہے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ اس میں انسان کے اعضاء کو نقصان پہنچا ہوتاہے جن کی اصلاح ضروری ہوتی ہے ۔ پلاسٹک سرجری کی دوسری قسم چہرے یا جسم کی کسی اور جگہ کے ظاہری مظہر اور نقش ونگارکو خوبصورت بنانےکیلئے کی جانے والی پلاسٹک سرجری جیسے ناک کوچھوٹا کرنا ، سوارنا ، پستانوں کو چھوٹا یا بڑا کرنا ،چہرے کی جھریاں ریموو(Skin tightening face )کرنا ،وغیرہ وغیرہ ۔ اس قسم کی سرجری کی شریعت اسلامیہ میں کوئی گنجائش نہیں ۔ کیونکہ اس قسم کی سرجری کا ضرورت وحاجت سے دور دورکا بھی واسطہ نہیں بلکہ اس کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو تبدیل کرنا اور لوگوں کی من مرضی سے اللہ کی بنائی گئی پیاری خلقت سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے ۔