کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 116
اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنِ اتَّجَرَ قبلَ أَنْ یتَفَقَّہ ارْتَطَمَ فِی الرِّبَا ، ثُمَّ ارْتَطَمَ ، ثُمَّ ارْتَطَمَ.أی: وقع فی الربا[1] ’’ جس نے حلال وحرام کا علم سیکھے بغیر تجارتی پیشہ اختیار کیا وہ سود میں مبتلا ہوگا ، سود میں مبتلاہوگا ، پھر مزید سود میں مبتلا ہوتا رہے گا ۔‘‘ تو جہاں اسلام میں بیع وشراء خرید و فروخت کے معاملے میں تفقہ اور حلال وحرام کی سمجھ ضروری ہے بعینہ یہی معاملہ علاج ودوا کا بھی ہے۔ اسلام کسی بھی حرام طریقے سے علاج کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی حرام دوا سے علاج کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے ۔ چنانچہ فرمان ِرسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے :’ إِنَّ اللَّہ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً ، فَتَدَاوَوْا وَلاَ تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ[2] ’’رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے بیماری بھی اتاری ہے اور دوا بھی اور ہر بیماری کے لئے دوا مقرر کی ہے لہٰذا تم دوا سے بیماری کا علاج کرو ، لیکن حرام چیز سے علاج نہ کرو ۔‘‘ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نَھَى رَسُولُ اللَّہ صلى اللہ علیہ وسلم عَنِ الدَّوَاءِ الْخَبِیثِ[3] ’’ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نےخبیث( نجس،ناپاک ،حرام )دوا کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔ ‘‘ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب سےدوا بنانے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : إِنَّہ لَیسَ بِدَوَاءٍ ، وَلَكِنَّہ دَاءٌ ‏‘ [4]
[1] مغني المحتاج (2/22) . [2] رواه ابو داود ( 3874 ) ، قال الشيخ الألبانی رحمه اللّٰه تعالیٰ : " الحديث صحيح من حيث معناه – لشواهده " لتعليقات الرضية على الروضة الندية " (3/154) . [3] رواه الترمذي ( 2045 ) ، وصححه الألباني . [4] رواه مسلم : 1948