کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 115
پلاسٹک سرجری کی شرعی حیثیت خالدحسین گورایہ[1] عصرِ رواں میں دنیا نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کی ہے وہیں طب جراحی میں بھی ایک نام پیدا کیاہے اور مختلف قسم کی سرجریاں متعارف کرائی ہیں ۔ اس قسم کی سرجری کو متعارف کرانے والے زیادہ تراہل مغرب ہیں اوران کے ہاں حلال وحرام عام انسان کی زندگی سے ہٹ کر چیز ہے ۔ اور دین ان کا ذاتی وشخصی اور پرائیوٹ مسئلہ ہے اس لئے ان کے ہاں حلال وحرام کی تمیز نہیں ہے۔ مارکیٹ کی طلب کو دیکھتے ہوئے جس چیز کی مانگ مارکیٹ میں ہوتی اسے تیار کرکے وہ مارکیٹ میں لانچ کر دیتے ہیں ۔ لیکن دین اسلام کسی بھی عمل کو انجام دینے سے پہلے اس کی حلت وحرمت کی پوزیشن معلوم کرنے کا حکم دیتاہے۔اس لئے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : لاْ یبِعْ فِی سُوْقِنَا إِلاْ مَنْ قَدْ تَفَقَّہ فِی الدِّینِ . [2]وإلا أَكَلَ الرِّبَا شَاءَ أم أَبَى‘. ’’ ہمارے بازار میں وہی آدمی سودا بیچے جو دینی معاملات ( یعنی حلال وحرام ) سے واقف ہو ، اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ چاہتے نہ چاہتے بھی سود خوری میں مبتلا ہوجائے گا ۔‘‘
[1] ریسرچ اسکالر المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی [2] رواه الترمذي (487) وقال: حسن غريب . وحسنه الألباني في صحيح الترمذي .