کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 114
ایک وہ جن کے نہ کرنے کی صراحت احادیث میں موجود ہ ہے۔جیسے جمع بین الصلاتین کے موقع پر آپ کا سنتیں ادا نہ کرنااور صرف دونوں نمازوں کے فرض ادا کرنا۔عیدین کی نمازکے لیے اذان اور اقامت (تکبیر)کا اہتمام نہ کرنا،وغیرہ ان کے نہ کرنے کی صراحت حادیث میں ہے۔
دوسری صورت ہے کہ نہ کرنےکی صراحت تو نہیں ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام نہیں کیا۔اس لیے کہ اگر وہ کام آپ نے کیا ہوتا توصحابۂ کرام یا ان میں سے کوئی ایک تو ضرور اس کو بیان کرتا،یا اس کام کا اہتمام صحابہ ضرور کرتے۔جب کسی سے اس کا کرنابھی منقول نہیں اور صحابہ کا کرنا بھی ثابت نہیں ،تو بالیقین اس کام کا نہ کرنا بھی سنت ہے۔جیسے مُردےکو دفنائے کے بعدقبرپر اذان دینا۔فرض نماز پڑھتے وقت اردو یا پنجابی وغیرہ زبان میں نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا،اذان سے قبل صلاۃ وسلام پڑھنا،جماعت کاسلام پھیرنے کے فوراً بعدبہ آواز بلند لا الہٰ الاللہ کا ورد یاصلاۃ وسلام کاپڑھنااور اس طرح کے بہت سے کام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ،کرنا۔یہ سب خلافِ سنت ہوں گےکیونکہ ان کو مستحب یا ضروری قراردینا ایسا ہی ہےجیسے آپ سے منقول مسنون کاموں کے چھوڑنے کو مستحب یاضروری قرار دینا۔ان دونوں باتوں میں فرق نہیں ۔
اس لیے مسنون اور مستحب کام صرف وہ ہوں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر سے ثابت ہوں گے۔کمالِ اتباع سنت یہی ہے کہ جو آپ سے منقول ہے،اس کو کیا جائے،جو منقول نہیں ہے اس کو نہ کیا جائے چاہے اہل بدعت نے اس پرکیسے ہی خوش نمالیبل یا حسین غلاف چڑھا دیا ہو۔
اس سنتِ ترکیہ کے اصول کومانے بغیر بدعت کادروازہ بند نہیں ہوسکتا۔
( جاری ہے )