کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 113
کےلیے بُرا ہونا اس کو معلوم ہو۔‘‘
اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ خیر وشر کا یہ علم پیغمبر کو اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے نیز پیغمبر اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اس کو اللہ کی طرف سے لوگوں کو بتلانے کےلیےجو کچھ بتلایا جائے،وہ اپنی امت کو بتلادے،جوکوئی بات اپنے پاس نہ رکھے۔قرآن کریم کی اس آیت کا ،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے،یہی مطلب ہے۔
﴿ وَمَا ہوَ عَلَی الْغَیبِ بِضَنِینٍ ﴾(التکویر:24)
’’وہ غیب (کی باتوں )پر بخیل نہیں ہے۔‘‘
کیونکہ پیغمبر کو یہی حکم ہوتا ہے
﴿ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ ﴾(المائدہ:67)
’’جو چیز آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتاری گئی ہے،وہ(لوگوں تک)پہنچادیجیے اور اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو گو یا آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا۔‘‘
ان آیات واحادیث سے معلوم ہوا کہ جن امور کا تعلق دین سے ہے،امر کا ہو یانھی(ممانعت)کا،وہ سب بتلادیے گئے ہیں ۔اب وحی ورسالت کا سلسلہ منقطع ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں نہ کمی کرنے کا اختیار ہے اور نہ زیادتی کا،امتی صرف اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کا پابند ہےاور اس کی نجات کےلیے اللہ رسول کی اطاعت ہی کافی ہے،وہ اوامر(احکامات)کو بجالائے اور نواہی(ممنوعات)سے باز رہے۔
سنّت ترکیہ،جو کام منقول نہیں ان کا ترک سنّت اور کرنا خلافِ سنت ہے
ایک تیسری قسم ان کاموں کی ہے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیالیکن لوگ ان کو دین یااجروثواب کا باعث گردان کرکرتے ہیں ۔ان کا کیا حکم ہے؟
ظاہر بات ہے کہ ان کا نہ کرنا ہی سنت اور کرنا خلافِ سنت ہے کیونکہ یہ سنتِ ترکیہ ہے،جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیااس کا نہ کرنا ہی سنت ہوگا،اس کی دو صورتیں ہیں ۔