کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 111
جانےکی مستحق قرار پاسکتی ہے،اس میں قطعاً کوئی اشکال یا استحالہ نہیں ۔اس طرح ایک بہت بڑی تعداد سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائےگی۔اور جہنم میں صرف وہی لوگ اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے رہ جائیں گے جن کے عقیدوں کی گمراہی نے ان کو شرک اکبر اور شرکِ صریح تک پہنچادیا ہوگااور دنیامیں وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہوئے فوت ہوئے ہوں گے۔ ان کےلیے یقیناً مغفرت نہیں ہے،وہ ہمیشہ جہنم ہی کا ایندھن رہیں گے،جنت ان پر حرام ہے،وہ کوئی بھی ہوں ،کسی بھی قوم اور مذہب سے ان کا تعلق ہو۔وہاں مذہب اور قومیت کاخانہ نہیں دیکھا جائے گا،صرف عقیدہ اور عمل دیکھا جائےگا،جن کے عقیدہ وہ عمل میں شرک کی گمراہی نہیں ہوگی،ان کو اللہ چاہے گا تو پہلے مرحلےہی میں معاف فرمادے گا،بصورتِ دیگر سزا کے بعد معافی مل جائے گی۔لیکن مشرکانہ عقائد اعمال کےحامل لوگوں کے لیے معافی نہیں ہے،وہ جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ثانیاً:امت محمدیہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے جہنم میں جانے کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ جنت میں دوسری امتوں کے مقابلے میں یہ امت کم ہوگی۔ایسا نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ نبوت بہت زیادہ یعنی قیامت تک ہےجس کی مدت کا تعین نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے ہر دور کے اہل حق،چاہے وہ تعداد میں تھوڑے ہی رہے ہوں ،قیامت تک کے اہل حق کو ملا کر بہت بڑی تعداد میں ہوجائیں گے۔اسی طرح حدیث کے مطابق اہل جنت کی اکثریت امت محمدیہ ہی کے افرادپر مشتمل ہوگی۔علاوہ ازیں بعد میں بھی ایک بہت بڑی تعداد اپنی اپنی سزا بھگت کر جہنم سے نکل کر جنت میں چلی جائے گی،ان کے لیے بھی جب اللہ کی مشیت ہوگی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ شفاعت فرمائیں گے،کچھ فرشتے اور صلحاء واتقیاء بھی سفارش کریں گے اور آخر میں کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل وکرم سے معاف فرمائے گا اور یوں اہل ایمان سب کے سب جنت میں پہنچ جائیں گےجہنم میں صرف وہی رہ جائیں جو مرتے دم تک مشرکانہ عقیدوں کے حامل اور عامل رہے،ان کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا اس لیے کہ مشرک اور کافر کے لیے جنت حرام ہے۔