کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 109
کا دن اللہ تعالیٰ نے بے لاگ عدل وانصاف کےلیے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق اچھی یا بری سزا دینےکےلیے رکھا ہے،نہ کہ اس لیے کہ ہر اچھے اور بُرے،متقی اور غیرمتقی،صالح اور فاجر کے ساتھ یکساں معاملہ کرکے سب کو اول وہلے ہی جنت میں داخل فرمادے۔اگر ایسا ہوتو یہ سراسر ظلم ہوگا۔انصاف تو نہیں ہوگا،اور اللہ کے لیے اس ظلم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔اسی غلط تصور کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہمْ كَالَّذِینَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْیاہمْ وَمَمَاتُہمْ ۭ سَاۗءَ مَا یحْكُمُوْنَ ﴾(الجاثیہ:12) ’’کیا جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا،وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم انہیں ان لوگوں کے مانند کردیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کا جینا اور مرنا برابر ہے،بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں ۔‘‘ قرآن کریم کی رُو سے ساری امتِ محمدیہ کی پہلے مرحلے ہی میں بخشش کا یہ تصور’’بُرا فیصلہ‘‘ ہے،جو اللہ کے بارے میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ شفاعت کا صحیح مفہوم اس لیے شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے امتِ محمدیہ کے ایسے بہت سے لوگوں کو معاف کرکےان کو پہلے مرحلے ہی میں جنت میں بھیج دے گا جن پر اللہ اپنا فضل وکرم کرنا چاہے گااور وہ زیادہ گناہ گار بھی نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ مَنْ ذَا الَّذِی یشْفَعُ عِنْدَہٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ﴾(البقرہ:255) ’’اللہ کی اجازت کے بغیر کون ہے جو اس کی بارگاہ میں شفاعت کرسکے؟‘‘ یعنی وہاں کسی کو کسی کے لیے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی اور نہ کسی کو یہ جرأت ہی ہوگی۔ہاں جس کو