کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 106
ہوں گے، ہردورمیں ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں گے، لیکن ایک گروہ ،جوتعداد میں تھوڑا ہوگا، ان سے نبردآزمااوران کی تاویلات رکیکہ و بعیدہ اورتلبیسات کاپردہ چاک کرتارہے گا اوریوں اصل دین بھی اپنی صحیح شکل وصورت میں موجودرہے گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازناہوگا، وہ تقلیدی راہوں اوربدعات سے نکل کراصل دین کواپناتے رہیں گے اوریوں نام نہاد مسلمان معاشروں میں اصل دین پرعمل کرنے والے اور اس کی حفاظت وصیانت کافریضہ اداکرنے والےبھی تاقیامت موجودرہیں گے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یحْمِلُ ہذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُہ، ینْفُونَ عَنْہ تَحْرِیفَ الْغَالِینَ، وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِینَ،وَتَأْوِیلَ الْجَاہلِینَ۔‘( شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کے بارے میں توقف کیا اور تحقیق کرنے کے ارادے کا اظہارکیا( ھدایۃ الرواۃ : 1/163)اورشیخ کے تلمیذ رشید علامہ سلیم الھلالی نے اس کی تحقیق کرکے اس کو حسن لغیرہ قراردیاہے۔ (البدعۃ واثرھاالسیفی) ”اس علم(قرآن وحدیث ،کوہرپچھلے لوگوں سے (بعد میں آنے والے) ثقہ لوگ (علماء راسخین)حاصل کریں گے، وہ اس (علم) سے وہ تحریفات دورکریں گے۔جو(بدعتی لوگ)حد سے تجاوز کرکے(غلوکرکےاپنی بدعات کے اثبات کےلیے اس میں ) کریں گے،اور قرآن وحدیث کی طرف اس غلط انتساب کی نفی کریں گے جواہل باطل (اپنے مذہب کی حمایت کےلیے) کریں گےاور(شریعت حقہ کے اصول ومناہج سے ناآشنا )جاہل لوگوں کی تاویلات کاپردہ چاک کریں گے۔‘‘ اس حدیث میں اہل حق کی صفات حمیدہ کا بھی بیان ہے اوران کے ذریعے سے تجدید واصلاح کاجوکام سرانجام پائے گا،اس کی بھی وضاحت ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوگی کہ وہ قرآن وحدیث کے علم سے بہرہ وررہوں گے،اس میں ان کورسوخ حاصل ہوگا۔ اور وہ اس علم کے ماہرہوں گے اور یہ سلسلہ نسل درنسل چلتارہے گا، ہرقرن اور ہردور میں ایسے علمائے حق ہوتےرہیں گے۔ اور ان کا سب سے اہم کام یہ ہوگا کہ اہل بدعت اوراہل زیغ اپنی گمراہیوں اوربدعات کے اثبات کےلیے قرآن وحدیث کے معنی ومفہوم