کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 102
انسانوں کے لیے اس کا اثبات ہوگا بشرطیکہ ان کے اندر بھی وہی چیزیں ہوں جو شان ِنزول کا سبب بننے والے لوگوں کے اندر تھیں ۔اس اعتبار سے اہل تقلید کا رویہ بھی قرآن وحدیث کے معاملے میں ان سےمختلف نہیں ہے جو عہد رسالت کے منافقین کا مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ بنابریں اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ وہ بھی اپنے تقلیدی رویےکی وجہ سے ان آیات کا مصداق قرار پاجائیں جو اگرچہ نازل منافقین کے بارے میں ہوئی تھیں اس لیے کہ العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب۔اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب’’عظمتِ حدیث۔‘‘مطبوعہ دارالسلام اس پہلو سے بھی امت مسلمہ کی اکثریت کو برسرحق تسلیم کرنا نہایت مشکل ہے۔ 5. اہل حق ہمیشہ تھوڑے ہی رہے ہیں ۔ مذكورہ چارنكتوں كو سامنے ركھتے ہوئے اس حقیقت كوماننے میں تأمل نہیں ہوناچاہیے كہ اہل حق ہمیشہ ہردورمیں كم ہی رہے ہیں اور اكثریت اہل با طل ہی كی رہی ہے۔ اس لیے حق كامعیار اكثریت یااقلیت نہیں ہے بلكہ صرف اور صرف قرآن كریم اوراحادیث صحیحہ ہیں جوسچے دل سے ان كومانے گا اوران پرعمل كرے گا،وہی برسرحق ہوگا، وہ كوئی فرد ہو یا جماعت، وہ تھوڑےہوں یازیادہ ۔لیكن واقعہ یہی ہے كہ اہل حق ہمیشہ قلیل ہی رہے ہیں ۔ ﴿ وَقَلِیلٌ مِّنْ عِبَادِی الشَّكُورُ ﴾(سورة سبا:13) ’’میرے شكرگزاربندے تھوڑے ہی ہیں ۔‘‘ اسی لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبرجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِی الْأَرْضِ یضِلُّوكَ عَن سَبِیلِ اللَّہ ۚ إِن یتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ ہمْ إِلَّا یخْرُصُونَ﴾(الانعام: ۱۱۲) ایك اور مقام پرفرمایا: