کتاب: البیان شمارہ 21 - صفحہ 101
کردیں تو اس کے بعد ان کو اپنےمعاملے میں کوئی اختیار ہو۔‘‘ مومنوں کا طرۂ امتیازاور شیوۂ گفتار تو اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے: ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِینَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰہ وَرَسُوْلِہٖ لِیحْكُمَ بَینَہمْ اَنْ یقُوْلُوْا سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہمُ الْمُفْلِحُوْنَ ،وَمَنْ یطِعِ اللّٰہ وَرَسُوْلَہ وَیخْشَ اللّٰہ وَیتَّقْہ فَاُولٰۗىِٕكَ ہمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ﴾(النور:51۔52) ’’بس مومنوں کی بات یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بُلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرےتو وہ کہتے ہیں ،ہم نے سنااوراطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرےاور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔‘‘ اورجو لوگ دعوائے ایمان کے باوجود اس کے برعکس رویہ اختیار کرتے ہیں ،ان کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَیقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰہ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یتَوَلّٰى فَرِیقٌ مِّنْہمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِینَ ؀وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰہ وَرَسُوْلِہٖ لِیحْكُمَ بَینَہمْ اِذَا فَرِیقٌ مِّنْہمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾(النور:47۔48) ’’اور وہ کہتے ہیں :ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت کی،پھراس کے بعد ان میں سے ایک فریق(اطاعت سے)پھر جاتا ہے،اور وہ لوگ مومن ہی نہیں ،اور جب وہ اللہ اوراس کے رسول کی طرف بلائےجاتے ہیں تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے،تو اچانک ان میں سے ایک فریق منہ موڑ لیتا ہے۔‘‘ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں تو یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ان میں انہی کا رویہ بیان کیا گیا ہے۔یہ بات بلاشبہ صحیح ہے لیکن یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلمہ ہے کہ شانِ نزول کےخاص سبب کا اعتبار نہیں ،اصل چیز وہ حکم ہے جو اس سے ثابت ہوتا ہے اور قیامت تک آنے والے