کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 9
سر عام پھانسی انسانی شرف ووقار کے خلاف ہے یا اس کے تحفظ کی ضامن؟ حافظ صلاح الدین یوسف[1] نوٹ:آج سے تقریباًرُبع صدی قبل 1991 میں سپریم کو رٹ پاکستان کے فاضل ججوں نے سرعام پھانسی کی بابت یہ کہہ کر کہ یہ انسانی شرف ووقارکے خلاف ہے،حکم امتناعی جاری کیا تھا۔عدالت عظمیٰ کا یہ حکم کسی پاکستانی قانون کے حوالے سے نہیں تھا کیونکہ پاکستانی قانون میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔یہ اس وقت کے فاضل ججوں کی اپنی آبزرویشن تھی،اس کی نہ کوئی قانونی بنیادہےاور نہ اس کی کوئی شرعی دلیل ہی ہے۔ چند مہینے قبل قصور میں ایک معصوم بچی کے ساتھ ایک درندہ صفت شخص نے جو سفاکانہ سلوک کیا تھا،اس کے پیش نظر عوام کا مطالبہ تھا کہ اس سفاک اور ظالم کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ اس کی سزا دوسرے مجرموں کےلیے عبرت ناک مثال بن جائے۔لیکن افسوس اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز صاحب سمیت چاروں صوبوں نے عوام کے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔ظاہر بات ہے کہ ہمیں اس عوامی مطالبے کی عدم پذیرائی سے سخت صدمہ ہوا ہےکیونکہ اس کو رد کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ بنا بریں یہ26،27 سال قبل کا یہ مضمون’’البیان‘‘میں شائع کیا جارہا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ سر عام پھانسی قرآن کریم کی ہدایت کےبھی مطابق ہے اور انسانی شرف ووقار کے تحفظ کی ضامن بھی۔اور اس کو رد کرنا صرف مغربیت سے مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔(ص،ی)
[1] مشیر وفاقی شرعی عدالت نگران شعبہ تحقیق و تصنیف المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی