کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 8
ہی وحشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ عام مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں ۔ مثلاً جہاد کو دہشت گردی، خلافت کو ظالمانہ بادشاہت و موروثیت یا مذہبی پیشواؤں کی حکومت، حدود و تعزیرات کو ظلم و تشدد اور حجاب کو پس ماندگی کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ عالم یہ ہے کہ آج اچھے بھلے پڑھے لکھے مسلمان بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ خلافت تو قبائلی معاشرے کا نظام تھا، آج اس کے قیام کی جدوجہد کا کیا فائدہ؟ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہمیں مغرب کے توحش کو دیکھتے ہوئے ان اصطلاحوں سے دست کش ہو کر ا نہی کی اصطلاحیں اپنا لینا چاہییں اور خلافت کے بجائے جمہوریت کی اصطلاح کو رواج دینا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اصطلاحات کے حقیقی مفاہیم کو اجاگر کیا جائے اور مغرب کے اس مکروہ پراپیگنڈے کا مؤثر جواب دیا جائے۔
اصطلاحوں کی اسلام کاری
اصطلاحات کے باب میں ایک خلط یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر اسلامی تہذیب سے ایک اصطلاح لے کر اس کے ساتھ اسلامی کا سابقہ لگا دیا جاتا ہے اور یوں گویا ایک کافرانہ تصور کو مشرف بہ اسلام کر لیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اسلامی اشتراکیت، اسلامی سوشلزم اور اسلامی جمہوریت ،اسلامی بینکاری اسی نوعیت کی اصطلاحیں ہیں حالاں کہ یہ اسلام سے بالکل مختلف بلکہ متضاد تصورات کی عکاسی کرتی ہیں ۔ ہمیں اپنے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی افکار و تصورات کی تعبیر کے لیے اپنے اسلاف سے منقول مذہبی لٹریچر میں مستعمل لفظیات کو رواج دینا چاہیے تا کہ کفر و اسلام کے نظریات میں فرق و امتیاز باقی رہے اور اسلامی عقائد التباس کا شکار نہ ہوں جیسا کہ فی زمانہ ہم بچشم سر اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں !
حرفِ آخر: اصطلاحوں کا مسئلہ بڑی دقتِ نظر اور تعمق فکر کا متقاضی ہے۔ اربابِ علم و تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغربی فکر و فلسفہ اور اسلامی تہذیب کا تقابل کرتے ہوئے ان کے باہمی تضادات و امتیازات کو اجاگر کریں اور افرادِ امت کو اس فکری بحران سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔
بشکریہ محدث