کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 70
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس غلطی پر جو طریقہ اختیارکیا ہے،وہاں وہ طریقہ افضل ہے،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعتیں رہ جانے پر انہیں ادا کیا اور سجدے سلام کے بعد کیے تو اس صورت میں سلام کے بعد بہتر ہیں اور ایک دفعہ آپ کا درمیانہ تشہد رہ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سلام پھیرنے سےپہلے کیے تواس صورت میں پہلے افضل ہیں ۔
٭ آخری تشہد میں دعائیں مکمل پڑھنے کے بعد ایک طرف سلام پھیرکر سجدۂ سہو کرنا اور پھر دوبارہ مکمل تشہد پڑھنا پھر سلام پھیرنا،یہ کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ۔
٭ باتیں کرنے یا وقت گزرنے سےنماز دہرانی نہیں پڑے گی۔ذوالیدین کے واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باتیں کرنے اور وقت گزرنے کے باوجود نماز نہیں دہرائی،صرف باقی نماز ادا کی اور سجدۂ سہو کیا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کچھ وقت گزر گیا،یا باتیں کرلیں تو نماز دہرانی پڑے گی،جبکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے،بلکہ یہ ذوالیدین والی صحیح حدیث کے خلاف ہے۔[1]
٭ ایک نماز میں ایک سے زائد غلطیاں ہوجائیں تو ان سب کے لیے ایک ہی سجدۂ سہو کافی ہے۔
[1] مسئلہ مذکورہ سے نماز میں باتیں کرنے کا جواز ثابت کرنا مقصود نہیں بلکہ اس مسئلہ کی وضاحت کرنا ہے کہ اگر بھول چوک سے یا غلطی سے سلام پھرنے پر امام کو تنبیہ کرتے وقت کوئی بات ہوگئی تو اس سےنماز لوٹانی ضروری نہیں بلکہ سجدہ سہو کفایت کرجائے گا ۔ البتہ ویسے نماز میں بات کرنا مطلقاََ حرام ہے ۔ ( ادارہ )