کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 7
اس اصطلاح کا یہ مفہوم ہمارے مذہبی لٹریچر میں کبھی بیان نہیں ہوا؛ بنا بریں یہ نادرست ہے کیوں کہ یہ فکری التباس کا باعث بنتا ہے اور عام مخاطب اس سے وہی مراد لیتا ہے جو علماء کے یہاں معروف ہے۔ پھر اس سے وہ تمام اُمور سنت کے اطلاق سے خارج ہو جاتے ہیں جو اس تعریف پر پورا نہیں اترتے لیکن احادیث کے دفاتر میں درج ہیں اور مسلمان انہیں سنت سمجھ کر ہی ان پر عمل پیرا ہیں ۔ ان اہلِ دانش سے ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ اپنے تصورات کی تعبیر کے لیے نئے الفاظ وضع کریں تا کہ غلط فہمی کا امکان باقی نہ رہے۔ مبہم اصطلاحیں 8.بعض ایسے الفاظ اور اصطلاحیں مشہور کی جاتی ہیں جن کا مفہوم انتہائی مبہم ہوتا ہے لیکن انہیں مسلمانوں سےجوڑ دیا جاتا ہے جیسے Terrorismیا دہشت گردی۔ آج تک دہشت گردی کی کوئی جامع تعریف متعین نہیں کی جا سکی چناں چہ استعمار سے آزادی کی خاطر ہتھیار اُٹھانے والے گروہوں کو بےتامل دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ طاقت ور ملکوں کی جانب سے کم زور ممالک کی حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے فوجی کارروائیوں کو دہشت گردی نہیں کہا جاتا۔ اسی منطق کی رو سے کشمیر میں مسلمانوں کا بھارتی فوج سے لڑنا تو دہشت گردی ہے لیکن عراق پر امریکی حملہ ہرگز دہشت گردی نہیں ہے۔ 9.یہی معاملہ Extremism یا ’انتہا پسندی‘ کا ہے کہ عام طور سے مذہبی طبقات کو انتہاپسندی کا طعنہ دیا جاتا ہے؛ خصوصاً وہ لوگ جو اسلامی شریعت کے نفاذ کی جدوجہد میں مشغول ہوں اور شرعی قوانین پر عمل پیرا ہوں ، انہیں انتہاپسند کا خطاب دیا جاتا ہے۔ لیکن اس اصطلاح کی بھی کوئی واضح اور متعین تعریف موجود نہیں ہے کہ اس کا معیار اور کسوٹی کیا ہے؟ کب کسی شخص یا گروہ کو انتہاپسند کہا جائے گا؟ اگر سیکولر اقدار و قوانین کی پابندی انتہاپسندی نہیں ہے تو مذہبی تصورات اور قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ انتہاپسندی کے دائرے میں کیوں کر داخل کیا جا سکتا ہے؟ شرعی اصطلاحوں کی گھناؤنی تشریح مغربی میڈیا نے، جو دراصل ان کی فکری یلغار کا ایک مؤثر ترین وسیلہ ہے، آج شرعی اصطلاحوں کو بہت ہی غلط معانی پہنا دیے ہیں اور انہیں اس قدر گھناؤنے تصورات سے جوڑ دیا ہے کہ لوگ انہیں سن کر