کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 6
ہی نہیں ہیں ؛ اس کا بنیادی محور خیر و شر اور ہدایت و ضلالت کے مباحث ہیں ؛ پس سائنسی نظریات سے اسلام کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، الاّ یہ کہ سائنس کا نام لے کر غلط طور پر عقائد و ایمانیات میں دخل اندازی کی کوشش کی جائے۔ اسلام میں بنیاد پسندی قابل تحسین ہے، بہ ایں معنیٰ کہ بنیادی عقائد و افکار سے وابستگی رکھی جائے اور ان سے سرِ مو انحراف نہ کیا جائے۔ 6. اسی طرح کا ایک لیبلTheocracyہے جسے ’ پاپائیت‘ کہہ کر بے تکلفی سے علما پر چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ تھیا کریسی، دراصل مذہبی پیشواؤں Priests کے حکومت و اقتدار سے عبارت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ پوپ کا فرمایا ہوا گویا خدا کا فرمان ہے، اور مذہب و قانون وہی ہے جو اس کی زبان سے نکلے۔ اس کے برعکس اسلام میں علما کو ایسی کوئی مذہبی اتھارٹی حاصل نہیں ہے؛ دین و مذہب محض وحی و تنزیل میں محصور ہے؛ علما بھی دیگر لوگوں کی مانند اس دین پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ باقی علما کی تشریحات ہیں جو اجتہاد کے زمرے میں داخل ہیں اور اجتہاد جب تک اجماع ( یعنی پوری اُمت کے اتفاق) میں نہ ڈھلے، اس سے علمی اختلاف کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ مختصراً یہ کہ ایسی اصطلاحیں اسلامی تہذیب میں فِٹ ہی نہیں بیٹھتیں کہ ان کا تناظر خالصتاً دوسری تہذیب اور غیر مذہب سے جُڑا ہوا ہے جو یہاں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ متفقہ اسلامی اصطلاحوں میں تحریف 7.مسلمانوں میں بعض تجدد پسند دانشور، جو جانے انجانے میں استعمار کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں ، اپنی خود ساختہ تشریحات و تعبیرات کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لیے صدیوں سے مروّج مذہبی لفظیات کو نت نئے معانی پہناتے ہیں ؛ یعنی لفظ پرانا اور شرح نئی! مثال کے طور پر ’سنت‘ کا لفظ لیجیے؛ یہ فقہ، عقیدہ اور اُصول کی معروف اصطلاح ہے اور عمومی طور پر جب کتاب و سنت کی ترکیب بولی جائے تو ہر مسلما ن اس کا یہی مفہوم سمجھتا ہے کہ اس سے مراد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و ارشادات اور افعال مراد ہیں جو کتبِ حدیث میں مندرج ہیں لیکن اب بعض اربابِ فکر نے اس کے معنیٰ یہ بیان کیے ہیں کہ ’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔‘‘