کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 5
پر جبری حکومت ہوتی ہے۔ اس سے یہ ہوا کہ اسلامی لٹریچر میں موجود جمہور علما کی ترکیب سے ڈیموکریسی کے جواز پر استشہاد کیا جانے لگا جبکہ دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جمہور علماکے موقف کو قرینۂ ترجیح کے طور پر اس وقت بیان کیا جاتا ہے جب حکم شرعی کی شرح و توضیح میں اہل علم کا اختلاف ہو جائے، جبکہ ڈیموکریسی میں شریعت کا کوئی دخل مانا ہی نہیں جاتا۔
3. اسی طرح اقوامِ متحدہ کی دستاویزات میں Women Empowerment کو عربی میں تمکین المرأة (عورت کو تمکین دینا) سے تعبیر کیا گیا تو اس پر علمانے نقد کیا اور وضاحت کی کہ اس کا صحیح ترجمہ استقواء المرأة بنتا ہے، یعنی ’عورت کو قوت دینا‘ یا قوی کرنا تاکہ وہ مردوں سے اپنے حقوق کے لیے جنگ کر سکے۔ یہ لفظ اصلاًFeminist تحریک کے ایک تصور کو بیان کرتا ہے جو اسلامی مفاہیم سے قطعی متصادم ہے۔ تمکین تو اسلام نے عورت کو پہلے ہی سے عطا کر رکھی ہے اور اس کے تمام حقوق کی مکمل نگہداشت کرتے ہوئے مردوں کو ان کی ادائیگی کا پابند کیا ہے۔
4. اسی طرح عربی زبان میں سیکولرزم کا ترجمہ العلمانيةکیا گیا لیکن یہ بھی بالکل غلط اور دور از کار ہے کیوں کہ یہ عربی لفظ علم سے مشتق ہے جب کہ Secularismمیں علم کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتا۔ اس کا صحیح مفہوم ’لا دینیت‘ یا مذہب کو دیگر امورِ زندگی (بہ شمول سیاست، قانون، معیشت، معاشرت) سے یک قلم جدا کر دینا ہے کہ ان معاملات میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔
غیر اسلامی تناظرات کا مسلم تہذیب پر اطلاق
5. بعض الفاظ ایسے ہیں جو یورپ کے قرونِ مظلمہ Dark Ages میں چرچ اور دیگر طبقہ ہاے فکرکے مابین ہونے والی آویزشوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے؛ مثلاً Fundamentalist جس کاترجمہ عربی میں الأصولية اور اردو میں ’بنیاد پرستی‘ کیا جاتا ہے۔ یہ منفی معنوں میں مستعمل ہے کیوں کہ اس سے اہلِ کلیسا کا وہ رویہ مراد لیا جاتا ہے جو انھوں نے نئے سائنسی نظریات کے بالمقابل اپنایا کہ انہیں خلافِ مذہب قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا جائے، حالانکہ یہ جدید نظریات اصل مذہب کے بجائے مذہب کے نام پر خود تراشیدہ مذہبی تشریحات کے خلاف تھے۔ اسلام میں ایسی کسی جنگ و پیکار کا وجود ہی پایا نہیں جاتا کہ انسانی تجربات و اکتشافات اور ان کے حاصلات اصلاً دین کا موضوع