کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 4
جنگیں اگرچہ توپ و تفنگ سے لڑی جاتی ہیں لیکن ان کا اصل میدان عقائد و افکار کے مباحث ہیں ۔ آج عالم کفر جہاں ملتِ اسلامیہ پر آتش و آہن کی بارش برسا رہا ہے وہیں اس کے تھنک ٹینکس ہمارے تصورِ زندگی اور مذہبی و معاشرتی اقدار کو بدلنے کے لیے بھی دن رات کوشاں ہیں ۔ الفاظ و مصطلحات چوں کہ پوری تہذیب کی نمائندہ ہوتی ہیں ، اسلیے ا نہیں بگاڑنے کے لیے وہ تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں ؛ اس ضمن میں استعمار اور ان کے کارندوں کے یہاں مختلف اسالیب بروے کار لائے جاتے ہیں جن کا مختصر تذکرہ حسب ذیل ہے: تلبیس: ترویج باطل کا ایک کارگر اسلوب 1. باطل کی ترویج کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اصطلاحوں کی اصل حقیقت کو مستور رکھتے ہوئے ان کے خود ساختہ مفاہیم کو رواج دیا جائے، مثلاً سیکولرزم کو فروغ دینے کے لیے اس کا یہ معنیٰ بیان کرنا کہ ’’ہر ایک کو اپنے مذہب پر رہنے کی آزادی ہے اور اس پر کوئی جبر نہیں ۔‘‘ بعض سادہ لوح اس فریب کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس کا یہی مطلب ہے تو ایک نئی اصطلاح کی حاجت ہی کیا ہے؟ مزید یہ کہ اہل مذہب کو یہ دھوکا دیا جائے کہ مذہب تو خود جبر کی نفی کرتا ہے، پس اس طرح اسلام خود سیکولر مذہب ہے۔ لیکن جب سیکولرزم کو منوا لیا تو پھر اصل نظام رائج کر دیا کہ مذہب کا سیاست و ریاست، آئین و قانون اور اقتصاد و معیشت سے کوئی تعلق نہیں ، اور یہ کہ مذہب کو مسجد و مندر کی چار دیواری تک محدود رکھو! اصطلاحوں کے گمراہ کن اور دل فریب تراجم 2.باطل افکار و نظریات پھیلانے کے لیے اہل باطل جو مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں ، ان میں ایک تکنیک یہ ہے کہ تباہ کن مفاہیم کی حامل اصطلاحوں کو ایسے خوش نما الفاظ میں دوسری زبانوں میں منتقل کیا جائے کہ اصل حقیقت پوشیدہ رہے اور لوگ التباسِ فکری میں مبتلا ہو جائیں ۔ مثلاًDemocracyکا ترجمہ’جمہوریت ‘ کرنا؛ حالاں کہ جمہوریت اس کا درست ترجمہ نہیں ہے، بلکہ ’عوام کی حاکمیت‘ اس کا صحیح مفہوم ہے۔ اور معنویت کے لحاظ سے جمہوریت میں اکثریت کی اقلیت