کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 19
ترجمہ: ’’(شیطان) کہنے لگا پھر تو تیری عزّت کی قسم میں ان سب (بنی آدم)کو یقیناً بہکادوں گاسوائے تیرےمخلص بندوں کے۔ ‘‘(ص:82-83)
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ ہدایت قرآن حکیم میں ہمیں شیطان، اُس کے چیلوں اور چالوں سے دور رہتے ہوئے اُس سے بچنے کا حکم دیا(البقرۃ:208) اور ایسی تدابیر بیان فرمائیں کہ جن کے ذریعہ ہم خود کو اللہ کی پناہ و حفاظت میں دیتے ہوئے شیطان مردود سے خود کو محفوظ رکھ سکیں ۔ انہی تدابیر میں سے ایک اہم تدبیر’’تعوّذ‘‘ کو جاننا ، سمجھنا اور عملی طور پر اُسے اپنا ناہے جس کی تفصیلات کو آسان اور مُختصر انداز میں اس مضمون میں جمع کیا گیا ہے۔اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭ تعوذ کی تعریف: تعوّذعربی زبان میں ایک اصطلاح ہےجس کا ’’ لفظی ‘‘ معنی ہے:
’’دور رہنا، بچنا، پناہ مانگنا، خود کو کسی کی حفاظت و پناہ میں دینا، کسی کی حفاظت و پناہ میں آنا۔‘‘[1]
اور اسی معنی میں عربی میں ایک اور کلمہ: ’’استعاذہ ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔
اور شریعتِ مطہّرہ میں اس اصطلاح سے مراد :
’’صرف ایک اللہ تعالیٰ کی پناہ وحفاظت طلب کرنا۔شیطان مردود سےاور ہر نقصان و شروالی بات ، حالات اور مخلوق کے شر و نقصان اور وسوسہ وغیرہ سے۔‘‘[2]
اللہ کی پناہ کیسے اور کب حاصل ہوگی؟
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کو اللہ کی حفاظت و پناہ اُس وقت حاصل ہوگی جب اُس میں مندرجہ ذیل چار باتیں موجود ہوں گی:
1. انسان پہلے تو اس بات کا پختہ عقیدہ و نظریہ رکھے کہ اس پوری کائنات میں صرف ایک اللہ ربّ العزّت
[1] لسان العرب،مادۃ: عوذ
[2] (دیکھیے: بدائع الفوائد (2/426) ، اغاثۃ اللہفان: (1/91)للامام ابن القیّم ، تفسير ابن كثير(1/16) ،مرقاة المفاتيح (2/448) ، عون المعبود (2/131))