کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 17
سعودی عرب میں اسلامی تعلیمات اور تعاملِ امت کے مطابق آج بھی سرِ عام سزاؤں کا اہتمام ہے تو اس کے نتائج وہاں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ۔ ہر شخص وہاں جاکر دیکھتا ہے کہ دوکانوں میں لاکھوں روپوں کا سامان پڑا ہوا ہے لیکن دوکاندار اپنی دکانیں کُھلی چھوڑ کر نمازیں پڑھنے کے لئے چلے جاتے ہیں ، راتوں کو لوگ امن وسکون کے ساتھ سوتے ہیں ، بلاخوف وخطر بادیہ پیمائی وصحراء نوردی کرتے ہیں اور تنِ تنہا دور دراز کا سفر کرتے ہیں ۔ کسی کو چوری کا خطرہ ہوتا ہے نہ لوٹ مار کا، اغوا کا خوف ہوتا ہے نہ دہشت گردی کا، ڈاکہ زنی کا اندیشہ ہوتا ہے نہ سلب ونہب کا۔
یہ کس قانون کی برکت ہے؟ یہ کسی انسانیس قانون کی برکت نہیں ، انسانوں کے خود ساختہ معیارِ انسانیت کی برکت نہیں ۔ یہ صرف قانونِ الٰہی کی برکت ہے، یہ اس معیار شرف وتکریم کی برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے، جس میں مجرموں کے لیے شرفِ انسانیت کی دہائی نہیں ہے بلکہ اس میں مجرموں کو جسدِ معاشرہ کا ناسور، پھوڑا اور زہر قاتل قرار دیا گیا ہے اور انسانی معاشرے کو صحت مند رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے ان ناسُوروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، ورنہ یہ فاسد مواد پورے معاشرے کو خراب کردے گا، جس کا مشاہدہ ہم اپنے معاشرے میں کر رہے ہیں ۔
بنا بریں ہمارے نزدیک یہ سوال کہ سرِعام پھانسیوں سے جرائم میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ؟ ایک تو بے محل ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ابھی تک اس کا صحیح معنوں میں اہتمام ہی نہیں ہوا ہے ؟ دوسرا یہ سوال ایمان کی کمزوری کی غمازی کرتا ہے ورنہ جس کا اللہ کی کتاب پر صحیح ایمان ہو، اس کو اس بات کا پختہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب پر عمل کرنے میں فلاح ہی فلاح ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے سرِعام سزاؤں کو پسند فرمایا ہے تو یقیناً سزاؤں کا یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ انسانی معاشروں کے امن وسکون کا ضامن ہے بلکہ یہ شرف ووقارِ انسانیت کا محافظ بھی ہے نہ کہ انسانی شرف کے منافی جیسا کہ مغرب زدہ حضرات کا نقطۂ نظر ہے۔
بہرحال جس لحاظ سے بھی زیر بحث حکم امتناعی کو دیکھا جائے، محل نظر ہی نظر آتا ہے اور کہنا پڑتا ہے۔
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا