کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 16
علاوہ ازیں ’’انسانیت‘‘ کے ان مغربی چیمپینوں کے نزدیک عصمت دری انسانیت یا انسانی حقوق کے منافی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں زنا (عصمت دری) بالرضاء سرے سے جُرم ہی نہیں ہے۔ زنا کاری ان کے نزدیک اس وقت جرم ہے جب اس میں جبر کا پہلو شامل ہو۔ اسی طرح چوراہوں ، سڑکوں اور عام شاہراہوں پرمرد وزن کا بوس وکنار جیسی قبیح حرکتیں بھی ان کے نزدیک عین تہذیب ہے کیونکہ یہ سارے کام باہمی رضامندی سے ہی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کتنا بھی اخلاق سے گرا ہوا کام ہو، وہ عورت اور مرد وہاں بلا کسی ادنیٰ حجاب کے کرسکتےہیں ۔ اس میں حکومت یا معاشرہ کو دخل اندازی کی اجازت نہیں کیونکہ یہ مداخلت ان کے نزدیک انسان کے بنیادی حقوق میں مداخلت ہوگی۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ’’انسانیت‘‘ ’’انسانی حقوق‘‘ یا ’’بنیادی حقوق‘‘ کا یہ تصور صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو کیا مغربی معاشرے کی مذکورہ لعنتیں ہماری عدالتوں کے نزدیک جائز متصور ہوں گی؟ اور اگر یہ مفہوم صحیح نہیں ہے تو پھر سرِعام پھانسی کو انسانیت اور انسانی احترام کے منافی کیوں کر سمجھا جا سکتا ہے؟ اور ہماری عدالتِ عظمیٰ کے فاضل ججوں نے سرِعام پھانسی کے خلاف از خود حکمِ امتناعی جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی ہے؟ ع کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ فاضل عدالت نے ایک سوال یہ پوچھا ہے کہ بر سرِعام پھانسی سے جرائم میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ؟ ہمارے خیال میں یہ سوال اس لیے بے محل ہے کہ پاکستان میں صحیح معنوں میں سرِعام پھانسیاں دینے کا اہتمام ہی نہیں ہوا ہے۔ سالوں بعد کسی ایک شخص کو پھانسی پر لٹکادینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا جب کہ جرائم ، اغوا اور قتل ودہشت گردی کی وارداتیں روز افزوں ہیں ۔ اس حساب سے سر ِعام پھانسیوں کا قطعاً کوئی اہتمام ہی آج تک نہیں کیا گیا ہے۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ مجرموں کی بابت یہ حکم دیتا ہے کہ انہیں دنیا میں ذلیل ورُسوا کروا ور انہیں ایسی سزاد و جو دوسرے لوگوں کے لیے عبرت ناک ہو۔ تو خطرناک مجرموں ، قاتلوں اور اغواکنندگان کو سرِعام سُولی پر لٹکانا عین منشائے الٰہی ہے اور ہم سرِعام سزاؤں کا مسلسل صحیح معنوں میں اہتمام کریں تو ہمارا ایمان ہے کہ اس طرح کرنے سے یقیناً مجرموں کی حوصلہ شکنی ہوگی، جرائم میں حیرت انگیز کمی ہوگی اور معاشرہ امن وسکون کا سانس لے گا۔