کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 15
زیادہ مؤثر طریقے سے یہ کام کر رہے ہیں ، کیا اخبارات اور دونوں قسم کے ٹیلی ویژنوں کا یہ کردار آئین کی کسی دفعہ کے خلاف نہیں ہے؟ کیا آئین اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ حکومت یا کوئی اور ادارہ اسلامیانِ پاکستان کی خواہشات کے برعکس اس ملک میں اسلامی تہذیب کی بجائے مغرب کی حیا باختہ تہذیب کو فروغ دے، مسلمان لڑکیاں سرِعام ناچیں اور گائیں اور ان کی تصویریں اخبارات اور ٹی وی پر گھر گھر دکھائی اور پہنچائی جائیں ؟ وعلیٰ ہذا القیاس اس طرح اور بھی کئی اہم اقدامات اور پالیسیاں ہیں جو آئین میں درج اسلامی دفعات کے خلاف ہیں ۔ کیا فاضل عدالتوں کے ارکان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ اگر وہ از خود ان کا جائزہ لے کر ان کے خلاف حکم امتناعی جاری کرسکتے ہیں تو وہ عنداللہ سرخروئی حاصل کرنے کے لیے اپنے ان اختیارات کو بروئے کار لائیں ، بصورت دیگر وہ بھی حکمرانوں اور بدی پھیلانے والوں کے ساتھ مجرم ٹھہرائے جا سکتے ہیں ۔ ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جدید اربابِ فکر ودانش کے نزدیک انسانیت یا ’’انسانی حقوق‘‘ کی تعریف کیا ہے ؟ یہی تعریف ہے جو مغربی مفکرین کرتے ہیں ؟ یا اس کا وہ مفہوم معتبر ہے جو اسلامی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے۔ اگر انسانی حقوق کا مطلب ان کے نزدیک وہ ہے جو مغربی مفکرین لیتے ہیں اور جس کو سامنے رکھ کر ہی سرِعام پھانسی کو انسانی وقار اور احترام کے منافی قرار دیا گیا ہے، تو پھر محترم! مسئلہ صرف سرِعام پھانسی ہی کا نہیں رہے گا، پھر تو سزائے موت بھی بجائے خود، چاہے کال کوٹھری کے اندر ہی ہو، انسانی وقار کے خلاف ہوگی، سزائے رجم بھی انسانیت کے خلاف ہوگی، ہاتھ پیر کاٹنا بھی ظلم ووحشت کا مظاہرہ ہوگا اور کوڑے مارنا بھی انسانیت کی تذلیل ہوگی، جیسا کہ اسلامی سزاؤں کے بارے میں اہل مغرب اور مغرب زدہ ان کے مشرقی شاگرد یہی کچھ کہتے ہیں اور اسی لیے ان سزاؤں کا مغرب میں وجود نہیں ہے۔ تو کیا ہمارے یہ دانشور بھی اسلام کی ان سزاؤں کو ظالمانہ ووحشیانہ ہی سمجھتے ہیں ؟ جس مغربی فلسفہ وفکر کے تحت سرِعام پھانسی سے انسانی وقار مجروح ہوتا ہے، وہ فکر وفلسفہ تو تمام ہی اسلامی سزاؤں (حدود) کو شرفِ انسانیت کے منافی اور ظالمانہ ووحشیانہ گردانتا ہے۔