کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 14
اس لیے سرِعام پھانسی یا کسی اور سزا کو شرفِ انسانیت کے خلاف باور کرانا اور اس کی بابت یہ تاثر دینا کہ اس طرح مجرموں کی عزت مجروح ہوتی ہے، یہ نظریہ اسلام کی تعلیمات کے صریح خلاف ہے۔ تیسری بات یہ کہ فاضل عدالتیں اگر از خود بھی معاملات اور حالات کا جائزہ لے کر فیصلے اور احکام صادر کر سکتی ہیں جیسا کہ زیر بحث مسئلے میں اس نے کیا ہے۔ اور یہ یقیناً اس نے تب ہی کیا ہے کہ وہ فی الواقع ایسا کرنے کی قانوناً مجاز ہیں ۔ توہم فاضل عدالت کے ججوں بالخصوص عدالتِ عظمیٰ کے محترم ارکان سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ ہمارے ملک کے آئین میں جس طرح انسانی حقوق کے بارے میں کچھ دفعات ہیں جن کی بنیاد پر حکمِ امتناعی جاری کیا گیا ہے، اسی طرح بہت سی دفعات اسلام کے بارے میں بھی ہیں ۔ بالخصوص قرادادِ مقاصد آئین کا حِصّہ بنادینے کے بعد تو اسلام کی سمت بہت زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحوں پر اسلام کودیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کروڑوں مسلمانوں کی خواہشات پامال اور ان کے اسلامی جذبات کا خون کیا جا رہا ہے اور اسلامی اقداروروایات کے برعکس غیر اسلامی اقدار وروایات کو بڑی تیزی کے ساتھ فروغ دیا جارہا ہے جب کہ آئین کی رُو سے اور بالخصوص قراردادِ مقاصد کی رُو سے حکومتِ پاکستان اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی اقدار وروایات کے احیاء ونفاذ کی پابند ہے۔ کیا ہماری عدالتوں اور ان کے فاضل ججوں کو قول وعمل کا یہ کھلا تضاد نظر نہیں آتا؟ کیا حکومتوں کا یہ مسلسل طرز عمل اور اسلام سے باغیانہ طریقہ آئین ِپاکستان کی کسی بھی شق اور دفعہ کے خلاف نہیں ہے؟ اگر ہے اور یقیناً ہے تو کیا وہ از خود اسی طرح ان اسلامی دفعات کی رُو سے، جو آئین میں موجود ہیں ۔ حکومت کی یا اور بعض مستحکم اداروں کی ان پالیسیوں کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر نہیں فرما سکتے جو اسلامی تعلیمات سے سراسر انحراف پر مبنی ہیں اور جن کی وجہ سے اس ملک میں اسلامی اقدار وروایات کا جنازہ نکل رہاہے ۔ مثال کے طور پر اخبارات جو الحاد اور فحاشی پھیلا رہے ہیں اور مسلمانوں کی نوجوان نسل بالخصوص نوجوان نسل کو جس طرح اسلام سے دُور کر رہے ہیں اور بالکل اسی طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن اور امریکی ٹیلی ویژن اور دیگر ٹی وی چینلز بھی