کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 13
کی طرف سے عبرت ہے ۔
سورۃ المائدہ آیت 33میں محاربت کی چار سزائیں بیان کی گئی ہیں ۔1 قتل ،2 سولی ،3 ہاتھ ، پاؤں مخالف جانب سے کاٹنا یا4 جلاوطنی۔ اس کے بعد فرمایا گیا: ﴿ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ﴾(المائدہ:33)
یہ سزائیں دنیا میں رُسوائی اسی وقت ہوں گی جب سرِ عام ہوں گی، ورنہ یہ مجرم کم از کم دنیوی رسوائی سے تو بچ سکتے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ انہیں دنیوی رسوائی سے بچانا نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ انہیں سرِ عام سزائیں دے کر انہیں ذلت ورسوائی سے دوچار کیا جائے تاکہ دوسرے لوگوں کے لیے وہ عبرت بن جائیں ۔
اسلام کی انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک امت ِ مسلمہ یہی سمجھتی اور اس پر عمل کرتی آئی ہے کہ خطرناک مجرموں کی عزت ووقار کا تحفظ نہیں کرنا ہے، بلکہ انہیں سرِ عام سزائیں دے کر انہیں ذلت ورسوائی سے دور چار کرنا ہے۔ اور جب بھی اور جہاں بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق مجرموں کے ساتھ ہمدردی کے بجائے، انہیں سخت سزائیں برسرِ عام دی گئیں ، ان معاشروں سے جرائم ختم ہوگئے اور بے مثال امن وسکون قائم ہوگیا،آج بھی بہت سی کوتاہیوں کے باوصف اسلامی سزاؤں کا یہ طریقہ سعودی عرب میں قائم ہے تو اس کے ثمرات وبرکات کا بھی ہر شخص مشاہدہ کر سکتا ہے۔
ان سزاؤں کو حدود بھی (حدّ کی جمع) اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سزائیں دوسرے لوگوں کو ان جرائم کا ارتکاب کرنے سے روکتی ہیں کیونکہ حدّ کے معنیٰ بھی روکنے کے ہیں ۔ اس لفظ ( حدّ) کا اقتضاء بھی یہی ہے کہ سزائیں سرِ عام دی جائیں تاکہ انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رہیں ۔ اگر سزائیں سرِ عام نہ دی جائیں تو یہ حدّیں (سزائیں ) حدّیں ہی نہ رہیں کیونکہ اس طرح ان کی افادیت ہی ختم ہوجائے گی اور یہ
جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا
کی آئینہ دار بن کر رہ جائیں گی۔