کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 127
بہرحال یہ الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے قبیل سے ہے ، اس میں معنوی طور پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہذا کسی بھی الفاظ کو اختیار کرلینا صحیح ہوگا۔
دعائے برکت کی حکمت :
مختلف مواقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسنون ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برکت کی دعا دی ہے بلکہ ترغیب بھی دی اور اس میں بڑی عظیم حکمت پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس دعا کی وجہ سے نظر بد کا اندیشہ نہیں رہتا جیساکہ :
ابو امامہ (اسعد ) بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ غسل کر رہے تھے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ گزرے ، انہوں نے ( سہل کو دیکھ کر ) کہا :اس جیسا (خوش رنگ جسم ) آج دیکھا ہے ، پہلے ) کبھی نہیں دیکھا ۔کسی پردہ نشین (کنواری لڑکی ) کی جلد بھی ایسی ( خوش رنگ ) نہیں (ہوتی۔) وہ فورا ہی زمین پر گڑ پڑے ( اچانک تیز بخار ہوا کہ کھڑے نہ رہ سکے ۔) انہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےپاس لایا گیا اور کہا گیا : سہل رضی اللہ عنہ کی خبر لیجئے ،وہ تو گر پڑے ہیں (اٹھ بھی نہیں سکتے۔) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’تمہیں اس کے بارے میں کس پر شک ہے ؟‘‘ لوگوں نے کہا : عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ (کی نظر لگی ہے ۔) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ،إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ،فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَة‘‘
’’کیاوجہ ہے کہ ایک آدمی کو اپنے بھائی میں کوئی چیزدیکھےجو اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ اسے برکت کی دعا دے ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وضو کریں ، چنانچہ انہوں نے اپنا چہرہ ،ہاتھ کہنیوں تک ، دونوں گھٹنے ، اور تہبند کااندر کاحصہ دھویا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی سہل پر ڈالنے کا حکم دیا۔[1]
مذکورہ واقعہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ برکت کی دعا دینے کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نظر بد کا
[1] سنن ابن ماجہ، حدیث :3509، کتاب الطب،باب العین