کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 12
ہے جتنی ایک مکھی اور مچھر کی ہوتی ہے۔ تو پھر ان ججوں اور عدالتوں سے یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ مجرموں کو عبرتناک سزائیں دے کر معاشرے کے تباہ شدہ امن وسکون کو بحال کرنے میں اور مجرموں کی سرکوبی کرنے میں کوئی مؤثر کردار ادا کرسکیں گی؟
دوسرا تأثر ہمارا یہ ہے کہ مغربی افکار سے متأثر حضرات قرآن کریم اور حدیث کی واضح تعلیمات اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تواتُر وتعامل سے بھی شاید بے خبر ہیں :
قرآن کریم میں یہ بات بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں کہی گئی ہے کہ خطرناک مجرموں کو ایسے انداز میں سرِعام سزائیں دی جائیں کہ جن سے لوگ عبرت پکڑیں ، وہ سزائیں ان کے لئے دنیوی ذلّت ورسوائی کا باعث ہوں اور سزا دیتے وقت تمہارے دلوں میں ان کے لئے نرمی اور شفقت کا جذبہ نہ ہو، زنا کی سزا بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
﴿ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾(النور:2)
’’اور تمہیں ان زانیوں پر اللہ کا حکم چلانے میں کوئی ترس نہ آئے اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہو اور اس سزا کے وقت مومنوں کا ایک گروہ دیکھنے کے لئے حاضر ہونا چاہیے۔‘‘
قرآن کریم کی اس آیت کا واضح مطلب یہی ہے کہ زانیوں کو سرِعام زنا کی سزا دی جائے۔ اگر غیر شادی شدہ ہیں تو انہیں سرِعام کوڑے مارے جائیں اور شادی شدہ ہیں تو حدیثِ نبوی اور تعامل خلفائے راشدین کے مطابق سرِ عام انہیں سنگسار کیا جائے۔
چوری کی سزا قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ۔ یہ سزا بجائے خود ایسی ہے کہ مجسم اشتہار اور مجسم عبرت ہے۔ چوری کے جرم میں سزا یافتہ چور کس طرح لوگوں سے مخفی ر ہ سکتا ہے؟ اور اس کی’’ عزت‘‘ کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟ اسی لیے قرآن نے اس کے لئے بھی یہ الفاظ استعمال کیے﴿ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ﴾ (المائدہ:38)یہ ہاتھ کاٹنا چور کے کرتوت کی سزا ہے اور اللہ