کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 116
کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو!؟۔‘‘ [1] لوگوں کا مال باطل اور ناحق کھانے کی مذمت میں واضح ترین یہ روایت بھی ہےجو صحیح بخاری میں جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں ’’ انسان کے جسم کے اعضاء میں سب سے پہلے اس کا پیٹ سڑتا ہے اس لئے اگر کوئی پاکیزہ چیز ہی کھا سکے تو ایساہی کرے ۔اور جو شخص یہ چاہے کہ اس کے اور بہشت کے درمیان چلو بھر خون جو اس نے ناحق بہایا ہو حائل نہ ہو تو اسےچاہیےکہ وہ تو ایساہی کرے۔‘‘ [2] اور سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں آدمی کو اس چیز کی کوئی پرواہ نہ ہوگی کہ وہ حلال طریقے سے مال حاصل کر رہاہے یا حرام طریقے سے۔‘‘ [3] رشوت خوروں نے یہ تکیہ کلام بنا لیاہے کہ جو ہاتھ میں آگیا وہ حلال ہے اور حرام وہ ہے جو ہماری دسترس میں نہیں ( یہ اصول بھونڈا اور ناقابل قبول ہے ) بلکہ حلال وہ ہے جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلال کردے اور حرام وہ ہے جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرام کردیں ۔ ذخیرہ حدیث میں متعدد ایسی حدیثیں ہیں جن میں ملازمین اور افسران کو اس چیز سے منع کیا گیاہے کہ وہ لوگوں کے مال سے کوئی چیز لیں چاہے وہ ہدیہ ہی کیوں نہ ہو ۔ ان میں ایک روایت ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بھی ہے فرماتے ہیں :’’رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بنواسد میں سے ایک آدمی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر فرمایا جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا یہ تمہارے لئے ہےاور یہ میرے لئے ہے جو مجھے ہدیہ دیا گیا ہے ۔رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) منبر پر تشریف فرما ہوئے اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا اس ملازم کا کیا حال ہے جسے میں نے(صدقہ وصول کرنے
[1] صحیح البخاری،حدیث:1015 [2] صحیح البخاری،حدیث:7152 [3] صحیح البخاری،حدیث:2083