کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 11
یہ خبر پڑھ کر اوّل وہلے میں تو ہمارا سارا وجود ہل گیا، دل کانپ اٹھا اور دماغ سخت کشاکش کا شکار ہوگیا کہ یا اللہ! اغواء، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے خطرناک مجرموں کی عزت ووقار کے تحفظ کا یہ حکم سپریم کورٹ کی طرف سے؟ یہ ماجرا کیا ہے؟ تاہم یہ پڑھ کر کچھ حوصلہ ہوا کہ اس سوال کی باقاعدہ سماعت ہوگی، چنانچہ لاہور میں یہ سماعت ہوئی اور مزید سماعت کے لئے جنوری1992ء کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔ عدالت کے فورم پر کیا فیصلہ ہوتا ہے، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم مناسب معلوم ہوا کہ اس بارے میں اپنے تاثرات بھی فاضل عدالت اور دیگر اہل قانون وسیاست تک پہنچائے جائیں اور احقاقِ حق کا فریضہ ۔۔۔۔ چاہے اس میں ہاتھ ہی قلم ہوں ۔۔۔۔ ادا کیا جائے۔
اس سلسلے میں ہمارا پہلا تأثر تو یہ ہے کہ ہماری عدالتِ عظمیٰ کے جن فاضل ججوں نے یہ حکم امتناعی جاری کیا ہے ، وہ مغربی افکار وتصورات سے مرعوب ہیں ۔ مغربی مفکرین کی ساری ہمدردیاں ان اخلاقی مجرموں ، خطرناک قاتلوں ودہشت گردوں ہی کے ساتھ ہیں جنہوں نے معاشرے کے امن وسکون کو تہ وبالا کیا ہوا ہے، اخلاق وشرافت کی دھجیاں بکھیر رکھی ہیں اور عصمتوں کی مقدّس چادر کو تار تار کیا ہوا ہے۔ یہ مجرم چاہے کتنی ہی عورتوں کا سہاگ لُوٹ لیں ، بچوں کو یتیم وبے سہارا کردیں ، بوڑھے ماں باپ کے عصائے پیری کو توڑ ڈالیں اور عصمتوں کے آبگینوں کو پاش پاش کردیں لیکن مغربی مفکّرین کے نزدیک پھر بھی یہ مجرم، یہ ننگِ انسانیت، یہ انسانوں کے لباس میں خوں خوار بھیڑئیے اور درندوں سے بھی زیادہ درندگی وبہیمیت کا مظاہرہ کرنے والے ’’معزز شہری‘‘ ہیں ان کو زیادہ سخت سزائیں نہ دی جائیں ، نہ ان کو موت کی سزا دی جائے۔ بس زیادہ سے زیادہ ان پر مالی جرمانہ عائد کردیا جائے یا جیل خانوں میں انہیں سرکاری مہمان بنادیا جائے۔
بالکل یہی ذہن اس حکمِ امتناعی میں کار فرما ہے جس میں سرِعام پھانسی کو ایک شہری کی عزت اور احترام کے منافی باور کرایا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال ہمارے نزدیک انتہائی تشویشناک ہے، جب عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں کی نظر میں بھی اُن مجرموں کی عزت زیادہ اہم ہے جنہوں نے معاشرے کی عزّت کو سنگینوں کے بَل پر لُوٹنے کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے اور جن خون آشام درندوں کی نظروں میں انسانی جان کی اتنی بھی قدر نہیں