کتاب: البیان شمارہ 20 - صفحہ 10
ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اداروں اور مغربی مفکّرین کے افکار وتصورات کے پھیلتے ہوئے اثرات نے معاشرے کے خطرناک مجرموں ، دہشت گردوں ، سفاک ڈاکوؤں اور انسان نُما قاتل درندوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات عام کردیئے ہیں ۔ ایک اخلاقی مجرم کو سخت سزا دینے سے بہت سے لوگوں کے دِل پسیجتے ہیں ، ان کی حسّ انسانیت بیدار ہوجاتی ہے اور نرمی ومحبت کے جذبات سے وہ مغلوب ووارفتہ ہوجاتے ہیں لیکن ان اخلاقی مجرموں کے دیدہ دلیرانہ اور بے رحمانہ کرتوتوں سے امن پسند شہریوں پر جو بیتتی ہے، جس طرح سہاگنوں کے سہاگ لُٹتے ہیں ، معصوم بچوں سے ان کے مادّی سہارے چھن جاتے ہیں ، بوڑھے والدین کو اپنی جوان اولاد سے محروم ہونا پڑتا ہے اور قوم کی بچیوں کی ردائے عصمت وتقدس تار تار ہوتی ہے۔وہ شاید ان کو نظر ہی نہیں آتا، یا شاید یہ افراد معاشرہ جو اخلاقی مجرموں کی درندگی وبربریت کا شکار ہوتے ہیں ، انسان ہی نہیں ہوتے تب ہی تو ان مفکرین اور دانشوروں کی ہمدردیاں صرف مجرمین ہی کے ساتھ ہیں ، مجرمین کی خطرناک سرگرمیوں کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ نہیں ۔
اب انسانی ہمددری نے ایک اور روپ دھارا ہے کہ دہشت گردوں اور قاتلوں کو سرعام پھانسی نہ دی جائے،کیونکہ سرِعام پھانسی دینا یہ انسانی شرف ووقار کے خلاف ہے۔ اور سرِعام پھانسی کے خلاف سپریم کورٹ کی طرف سے حکم امتناعی تک جاری کردیا گیا ہے۔[1]
خامہ انگشت بہ دنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے؟
خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ یا حکم امتناعی کسی درخواست کو نمٹاتے ہوئے جاری نہیں کیا ہے بلکہ از خود صورتِ حال کا نوٹس لیتے ہوئے ایسا کیا ہے، کیونکہ خصوصی عدالتوں کی طرف سے دہشت گردی کے بعض خطرناک مجرموں کو سرِعام پھانسی کی سزائیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ خطرہ ہے کہ اگر ان کی طرف سے دائر کردہ رحم کی اپیلیں مسترد کردی گئیں تو انہیں سرِعام تختۂ دار پر لٹکادیا جائے گا۔
[1] روزنامہ جنگ لاہور۔ 21نومبر 1991ء