کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 9
نظر آئیگا یا اس کو مغرب کا وقت تسلیم کرلیاجائیگا ۔۔۔۔۔؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ :اس مطلع کا اختلاف معتبر بھی ہوگا یا نہیں ؟ احناف کا مشہور مسلک یہی ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہے ، یعنی اگر مشرق کے کسی خطے میں چاند نظر آیا تو وہ مغربی خطوں کے باشندوں کے لئے بھی حجت ہوگا اور یہی رؤیت ان کے لئے عیدین اور رمضان ثابت کرنے کو کافی ہوگی۔ امام شافعی اور کچھ دوسرے فقہا ء کے یہاں اس اختلاف مطالع کا اعتبار ہے اور ان کے یہاں ایک مقام کی رؤیت ددسرے مقام کےلیے بھی رؤیت اور چاند دیکھے جانے کی دلیل نہیں ہے۔وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں لیکن ابن عباس کی جس روایت کو وہ اپنی دلیل بناتے ہیں وہ ان کے نقطہ نظر کے لئے صریح اور دو ٹوک نہیں ہے، البتہ یہ بات بہت واضح ہے کہ نمازوں کے اوقات میں سبھی اختلاف مطالع کا اعتبار کرتے ہیں ۔ اگرا یک جگہ ظہر یا عشاءکا وقت ہوچکا ہو اور دوسری جگہ نہ ہوا ہو تو جہاں وقت نہ ہوا ہو وہاں کےلوگ محض اس بناءپر ظہر یا عشاء کی نماز ادا نہیں کرسکتے کہ دوسری جگہ ان نمازوں کا وقت ہوچکا ہے یا اگرا یک جگہ مہینہ کا 28 واں ہی دن ہے اور دوسری جگہ 29واں ، جہاں چاند نظرآگیا تومحض اس بناءپر28 ویں ہی پر مہینہ کرکے اگلے دن رمضان یا عید نہیں کی جائیگی کہ دوسری جگہ چاند نظرآگیا ہے۔ اس لئے یہ بات فطری اور انتہائی منطقی ہے کہ مطلع کے اختلاف کا اور اسی لحاظ سے رمضان اور عیدکا اختلاف تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔فقہائے متقدمین کے دور میں اول تو معلوم کائنات کی یہ وسعت دریافت ہی نہ ہوئی تھی اور ممالک ہی نہیں کئی براعظموں سے دنیا بے خبر اور ناآشنا تھی ، پھراس میں بھی مسلمان جزیرۃ العرب اور خلیجی علاقوں میں محدود تھے ، اس وقت تک شاید یہ بات ممکن رہی ہو اور ان کے مطلع میں اتنا فرق نہ رہا ہوکہ اس کو الگ الگ سمجھا جائے ، اس لئے فقہا نے ایسا کہا ہے، چنانچہ خود فقہائے احناف میں بھی مختلف محققین نے اختلاف مطالع کا اعتبار کیا ہے ۔ حضرت مولانا عبدالحئی لکھنؤی فرنگی محل نے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور مختلف فقہا کی عبارتیں نقل کی ہیں جو یہاں ذکر کی جاتی ہیں ، مشہور کتاب ’’مراقی الفلاح‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں ۔ ’’وقیل یختلف ثبوتہ باختلاف المطالع واختارہ صاحب التجرید کما إذا زالت الشمس عند قوم وغربت عند غیرھم فالظہر علی الأولین لاالمغرب لعدم انعقاد السبب فی حقھم۔‘‘