کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 8
پاکستا ن کے بعض احناف کے نزدیک پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید اور اوررمضان کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور علمائے احناف کا یہ گروہ اسی پر زور د ے رہا ہے ۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ پاک و ہند کے حنفی علماء بھی اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے کے قائل ہیں ، یعنی وہ کسی ایک جگہ کی رؤیت کو پورے عالم اسلام کے لئے کافی نہیں سمجھتے ۔پاکستان کے جید علمائے احناف کی رائے پر مبنی ایک اقتباس ہم ’’جواہرالفقہ‘‘ سے نقل کر چکے ہیں جس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ وحدت کے لئے ایک ہی دن عید مناناضروری نہیں ہے۔ ا ب ہم ذیل میں ایک ہندوستانی حنفی عالم کی کتا ب سے یہ بحث نقل کرتے ہیں جس میں انہوں حنفی فقہاء و علماء کی آراء نقل کر کے ثابت کیا ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ہے اور بھارت کے تمام اہل سنت کے مکاتب فکر کا متفقہ فیصلہ بھی نقل کیا ہے جس میں اختلاف مطالع کو معتبر قرار دیا گیا ہے ۔چنانچہ لکھتے ہیں :
اختلاف مطالع کی بحث
یہ مسئلہ گو اپنی نوعیت کے لحاظ سے قدیم ہے لیکن عصر حاضر کے اکتشافات ،نیز تیز ذرائع مواصلات کی دریافت نے اسے پھر جدیدمسائل کی فہرست میں داخل کر دیا ہے۔’’مطلع‘‘ کے معنی ’’چاند کے طلوع ہونے کی جگہ‘‘ کے ہیں ۔ اس طرح ’’اختلاف مطلع ‘‘ کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں چاند کے طلوع ہونے اور نظر آنےکی جگہ الگ الگ ہوا کرتی ہے ، لہٰذا عین ممکن ہے کہ ایک جگہ چاند نمودار ہو اور دوسری جگہ نہ ہو۔ایک جگہ ایک دن چاند نظر آئے اور دوسری جگہ دوسرے دن ۔۔۔۔۔۔اب یہاں دو سوالات ہیں :
ایک یہ کہ’’اْختلاف مطلع ‘‘پایا جاتا ہے یا نہیں ؟
دوسرےا گر پایا جاتا ہے تو اس کا اعتبار بھی ہوگایا نہیں ؟
پہلا مسئلہ : اب نظری نہیں رہا بلکہ یہ بات مشاہدہ اور تجربہ کی سطح پر ثابت ہوچکی ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مطلع کا اختلاف پایا جاتا ہے ، اس کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بعض مقامات ایسے ہیں جن کے درمیان بارہ بارہ گھنٹوں کا فرق ہے ۔عین اس وقت جب ایک جگہ دن اپنے شباب پر ہوتا ہے تو دوسری جگہ رات اپنا آدھا سفر طے کرچکی ہوتی ہے ۔ٹھیک اس وقت جب ایک مقام پر ظہر ہوتی ہے، دوسری جگہ مغرب کا وقت ہو چکا ہوتا ہے ۔ظاہر ہے ان حالات میں ان کا مطلع ایک ہو ہی نہیں سکتا۔ فرض کیجئے کہ جہاں مغرب کا وقت ہے ، اگر وہاں چاند نظر آئے تو کیا جہاں ظہر کا وقت ہے وہاں بھی چاند