کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 6
کے منافی کیونکر سمجھا جائے ؟اپنے اپنے حساب سے ہر ملک میں الگ الگ عید منائی جا سکتی ہے اور رمضان کے روزے رکھے جاسکتے ہیں ۔شریعت نے ایسا کوئی حکم دیا ہے اور نہ اس کا کوئی اہتمام ہی کیا ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ ایک ہی دن عید منائیں اور ایک ہی دن روزے رکھیں ۔ بلکہ اس کے برعکس یہ حکم دیا ہے : ’’صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ‘‘ ’’ چاند دیکھ کر روزے رکھو(رمضان کا آغازکرو) اور چاند دیکھ کر افطار (روزہ رکھنا ترک اور عید)کرو۔‘‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک ہر ملک میں اس کے حساب سے رؤیت ہلال کا اثبات نہ ہوجائے ، نہ رمضان کا آغاز کرنا صحیح ہے اور نہ روزے ختم کرکے عید کا اہتمام کرنا مناسب ہے۔بلکہ بعض صورتوں میں ایک ہی ملک کے دوردراز علاقوں میں بھی رمضان اور عید کا الگ الگ اہتمام ہوسکتا ہے،بشرطیکہ رؤیت کے شرعی تقاضوں کاخیال رکھا گیا ہو۔ اس کی کچھ مزید تفصیل آگے آئے گی۔ جیسے ہر ملک اور علاقے میں جب تک صبح صادق نہ ہوجائے ، فجر کی نماز نہیں پڑھی جاسکتی اور جب تک سورج غروب نہ ہوجائے مغرب کی نماز نہیں پڑھی جاسکتی، اسی طرح رؤیت ہلال کا مسئلہ بھی ہے۔یہ بھی طلوع و غروب شمس کی طرح اختلاف مطالع کے اعتبار سے مختلف ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، اس میں نہ یکسانیت و وحدت پیدا کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا ہمیں کوئی حکم ہی دیا گیا ہے ۔ چودہ صدیوں سے عالم اسلام میں اپنے اپنے حساب سےعیدین اور رمضان کا اہتمام ہوتا چلا آرہا ہے ، اسے کبھی بھی وحدت و یک جہتی کے منافی نہیں سمجھا گیا ۔اب ایسا کرنا کیوں کر وحدت کے منافی ہوجائے گا؟ بعض جلیل القدر علمائے احناف نے تو صرف پاکستان کی حد تک بھی ایک ہی دن عیدمنانے کو شرعی لحاظ سے غیر ضروری قرار دیا ہے ۔۔۔۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’اگرچہ شرعی حیثیت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ پورے ملک میں عیدایک ہی دن ہو ۔ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں اس وقت کے موجودہ ذرائع مواصلات کو بھی اس کام میں استعمال کرنے اور عیدایک ہی دن منانے کا کوئی اہتمام نہیں ہوا اور ملک کے وسیع و عریض ہونے کی صورت میں شدید اختلافِ مطالع کی مشکلات بھی اس میں پیش آسکتی ہیں ۔لیکن پاکستان کے عوام اورحکومت کی اگر یہی خواہش ہے کہ عید پورے پاکستان میں ایک ہی دن ہو تو شرعی اعتبار سے اس کی بھی گنجائش ہے۔شرط یہ ہے کہ عید کا اعلان پوری طرح شرعی ضابطہ شہادت کے تابع ہو۔‘‘[1]
[1] جوہر الفقہ، مفتی محمد شفیع مرحوم : 398،397/1