کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 4
اگرمثلاً: اہل مکہ یا اہل مصر چاند دیکھ لیں لیکن دوسرے علاقے کے لوگ اسے نہ دیکھ سکیں تو اہل مکہ یا اہل مصر کے لئے تو رؤیت ہو گئی اور وہ اس بنیاد پر رمضان کے آغاز یا اختتام کا فیصلہ کریں گے لیکن دوسرے علاقے کے لوگ کس طرح یہ فیصلہ کر سکتے ہیں جبکہ انہوں نے چاند دیکھا ہی نہ ہو۔ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک نظیر علاوہ ازیں اس کی ایک دوسری وجہ عہد صحابہ کی ایک نذیر ہے جس سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے جو مذکورہ سطور میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔۔وہ واقعہ حسب ذیل ہے : ’’حضرت کریب رحمۃاللہ علیہ (تابعی)بیان کرتے ہیں کہ مجھے ام الفضل نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا ۔ میں وہاں گیا اور اپنا کام پورا کیا اور ملک شام ہی میں میری موجودگی میں وہاں رمضان کا چاند ہوگیا اور یہ جمعہ کی رات تھی ۔پھر جب میں مہینے کے آخر میں مدینہ واپس آیا ، تو مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا تھا ،میں نے بتلایا کہ جمعے کی رات کو،انہوں نے پوچھا :تم نے خود دیکھا تھا؟میں نے کہا: ہاں ، میں نے بھی اوردوسرے لوگوں نے بھی دیکھا اور اس کے مطابق ہی لوگوں نے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے روزے رکھے تھے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:لیکن ہم نے تو یہاں (مدینے میں )ہفتے کی رات کو چاند دیکھا تھا ، چنانچہ ہم تو پورے تیس روزے رکھیں گے یا پھر (29رمضان کو)ہم چاند دیکھ لیں ۔ تو میں نے کہا : کیا آپ کے لئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح ہی حکم دیا ہے ۔‘‘[1] صحیح مسلم کی احادیث کی تبویب کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ نےاس واقعے پر باب کا جو عنوان دیا ہے، اس کا ترجمہ ہی یہ ہے: ’’ اس بات کا بیان کہ ہر علاقے کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہے، نیز یہ کہ جب کسی علاقے کے لوگ چاند دیکھ لیں تو رؤیت ان لوگوں کے حق میں ثابت نہیں ہوگی جو ان سے دور ہوں گے۔‘‘ پھر امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کےتحت لکھتے ہیں : ’’ وإنما ردہ لأن الرؤیۃ لایثبت حکمھا فی حق البعید‘‘
[1] صحیح مسلم: الصیام ، باب بیان أن لکل بلد رؤیتھم و أنھم اذا رأوا الھلال ببلد لایثبت حکمہ لما بعد عنھم