کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 3
7۔جہاں موسم اکثر ابر آلود رہتا ہو اور وہاں رؤیت کا اہتمام ممکن ہی نہ ہو، ایسے ممالک میں رؤیت کا اثبات کس طرح ہوگا؟ 8۔فقہ حنفی کا مسئلہ اورپاک و ہند کے علماء احناف کا مؤقف۔ 9۔ ایک علاقے کے لوگوں کا یہ مؤقف کہاں تک صحیح ہے کہ انہوں نے غیر سرکاری کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں اور وہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے برعکس فیصلہ کر کےایک یا دو روز پہلے ہی چاند کا اعلان کردیتے ہیں ؟ 10۔رؤیت کے اثبات کے لئے کتنے گواہ ضروری ہیں ؟َ 11۔وزارت مذہبی امور کی تجاویز جو چند سال قبل منظر عام پر آئی تھیں ، ان کی حیثیت کیا ہے ؟ 12۔اس مسئلے کےحل کے لئے کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے ؟ ہم نہایت اختصار سے اس مسئلے سے متعلق مسائل کا جائزہ بتوفیق اللہ وعونہ پیش کرتےہیں ۔ نوعیت مسئلہ: مہ و سال کا دارومدار بالاتفاق سورج کے بجائے چاند پر ہے لیکن کائنات کی وسعت کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک ہی روز مہ و سال کی ابتدا یا انتہا ناممکن ہے کیونکہ واقعاتی طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مطالع کابعد اور اختلاف اس قدر یقینی ہے کہ اس کا اعتبار کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ،اس لئے شرعی دلائل کی رو سے ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہوں کے لیے معتبر نہیں ہے بلکہ ہر علاقے کی رؤیت صرف اسی علاقے کے لوگوں کے لئے معتبر ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ ) (البقرۃ: 185:2) ’’جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو ، اسے چاہیے کہ وہ اس کے( پورے )روزے رکھے ۔‘‘ او ر اس مہینےکے روزے اسی پر فرض ہوں گے جو رمضان المبارک کا چاند دیکھے گا، رؤیت ہلال کے بغیر رمضان کا اس موجودگی میں تحقُق ہی نہیں ہوگا ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان گرامی ہے : ’’صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ ، فان غمی علیکم فأکملوا عدۃ شعبان ثلاثین ‘‘