کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 27
بنیاد نہیں ہے،حتیٰ کہ سعودی عرب کی رؤیت کو بھی اس کے لئے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ۔ ٭ عالم اسلام کے ممالک میں مطالع کا شدیداختلاف اور فرق ہے،اس کے ہوتے ہوئے کسی ایک ملک کی رؤیت کو عالم اسلام کے تمام ممالک کے لئے کافی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ٭ ہر علاقے کے لوگوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ضروری ہے ،البتہ ایک ملک کی حدتک کسی ایک علاقے یا کسی ایک شہر کی رؤیت کو پورے ملک کے لئے قابل اعتبار گردانا جاسکتا ہے،کیونکہ ایک ملک کے شہر وں کے مطالع میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا ،تاہم مختلف صوبوں میں اگر الگ الگ عیدیں بھی اپنی اپنی رؤیت کی بنیاد پر ہوں تو شرعاً یہ بھی جائز ہے۔ ٭ رصد وعلم فلکیات کے علم سے چاند کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فائدہ اٹھانا اور اس پر اعتماد کرنا جائز ہے،تاہم فلکیات کی بنیادپر سارے سال کے لئے کلینڈر بنایا ناجائز ہے۔ ٭ اہل خیبر کے معاملےکو علماء باہم مل کر حل کریں جیسا کہ ہم نے بھی اس سلسلے میں ایک تجویز پیش کی ہے، لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوسکے تو ان کا باقی صوبوں سے پہلے چاند دیکھ کر الگ عید منانا یا رمضان کاآغاز کرنا کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں ہے کہ اس کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے ان کے معاملے کو ان کے علماء ہی پر چھوڑ دیا جائے ۔ ٭ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا طریقہ کار صحیح ہے اور اس کے فیصلے کے مطابق عیدو رمضان کا آغاز کرنا صحیح ہے ،اہل خیبر بھی اگر اس کے مطابق ہی عیدین اور رمضا ن کا اہتمام کریں تو بہتر ہے ،تاہم اگروہ اپنی رؤیت کے مطابق عمل کریں اور اپنے لوگوں کی شہادتوں پر اعتماد کریں جیسا کہ سالہا سال سے وہاں ایسا ہی ہوتا آرہاہے توشرعاً کوئی حرج والی بات نہیں ۔ ٭ پاک و ہند کے علمائے احناف کے نزدیک بھی مطالع کا فرق معتبر ہے ،اس لئے پاکستان میں بعض علمائے احناف اور اہل خیبر کی ا س رائے میں کوئی وزن نہیں ہے پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید منائی جائے ۔ ٭ جن ممالک میں موسم اکثر ابرآلود رہتا ہو ،وہ ایسے ممالک کی رؤیت پر اعتماد کر سکتے ہیں جہاں رؤیت کے لئے شرعی تقاضوں کا اہتمام کیا جاتا ہو۔