کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 26
جہاں تک شہادت کا معاملہ ہے اس کی جانچ پرکھ کا کام علماءکا ہے ،وہی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ رؤیت ہلال کی جو شہادتیں میسر آئی ہیں ،وہ کس حد تک قابل قبول یاقابل رد ہیں اورآیا ان کی بنیاد پر رؤیت کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط ؟ حکومت کا کوئی انتظامی ادارہ شہادتوں کی جانچ پڑتال کا اہل نہیں کیونکہ اس میں حکومت کی سیاسی مصلحتیں اور مفادات درمیان میں آسکتے ہیں ،جواس سارے کام کو مشکوک بنا دیں گے اور اسی وجہ سے عوام ان معاملات میں حکومت کے فیصلوں پر اعتماد نہیں کرتے ۔جبکہ علماء کے سامنے اس قسم کے کوئی مفادات نہیں ہوتے ،وہ تو صرف لوجہ ِاللہ عوام کی دینی رہنمائی کا دینی فرض ِ منصبی ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بنابریں رؤیت ہلال کمیٹی کے ختم کرنے کی تجویز غیر معقول اور ایک بنے بنائے نظم کو بگاڑنے کی مذموم سعی ہے ، البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کمیٹی کو زیادہ مؤثر اورقابل اعتماد بنایا جائے اور اس کی صورت یہ ہے کہ اس میں علماء کو صرف میرٹ کی بنیاد پر شامل کیا جائے ،یعنی ان علماء کو کمیٹی کا ممبر بنایا جائے جو مستند عالم اور عوام کے معتمدعلیہ ہوں ۔محض سیاسی رشوت کےطور پر حکومت کی حلیف مذہبی جماعتوں کے نمائندوں اور ان کے تجویز کردہ علماء ہی کو شامل نہ کیا جائے (جیسا کہ عام طورہر معمول ہے )بلکہ حکومت کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظر اہل تر افراد کو نامزد کیا جائے ۔ 4۔سعودی عر ب بلا شبہ حرمین شریفین کے خادم ہونے اور دیگر بہت سی امتیازی خصوصیات کا حامل ہونےکہ وجہ سے نہایت قابل احترم ہے ، لیکن پاکستا ن اور سعودی عرب کے مطلع میں بہت زیادہ فرق ہے ، اس لئے سعودی عرب کی رؤیت کوپاکستان کے لئے بھی قابل اعتبار گرداننا شرعی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہوگا ۔شرعی نصوص کاتقاضا اور اکثر علماءکا فیصلہ یہی ہے کہ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقوں کے لئے کافی نہیں ہے الا یہ کہ مطلع کا زیادہ فرق نہ ہو جیسا کہ پہلے اس پر تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے۔اس اعتبار سے سعودی عرب کے فیصلے کو پاکستان کے لئے بھی لازم قرار دینا شرعی نصوص کے خلاف ہوگا۔ خلاصہ مباحث مذکورہ مباحث و تفاصیل کا خلاصہ حسب ذیل ہے : ٭ عالم اسلام میں ایک ہی دن عید منانے اور رمضان وغیرہ کے آغاز کرنے کا جو تصور ہے ،اس کی کوئی شرعی