کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 24
یہ اتحاد امت کی اچھی مثال بن سکتی ہے ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے خیال میں وزارت مذہبی امور کی مذکورہ دونوں ہی تجویزیں نہ صرف درست نہیں بلکہ قابل عمل بھی نہیں !!
جہاں تک پہلی تجویز کا تعلق ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے سے علمائے کرام کا تعلق ختم کر دیا جائے اور یہ معاملہکلیتاًحکومت کے ہاتھ میں چلا جائے ۔لیکن اس سے مسئلہ سلجھے گا نہیں ، مزید الجھے گا ، اس لئے کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جس میں رہنمائی کے لئے عوام دینی رہنماؤں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کریں گے کیونکہ وہ شرعی مسئلے میں حکومت پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ۔
خود مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کےقیام کا پس منظر بھی یہی ہے کہ ایوب خان کے دور میں ایک دو مرتبہ حکومت نے اپنے اعلان کے مطابق عید منوانے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی اور عوام نے علماء کی رائے پر ہی مکمل اعتماد کا اظہار کیا ۔اس تجربےکی روشنی میں بالآخر حکومت نے رؤیت ہلال کمیٹی قائم کی اور یہ معاملہ کلیتًااس کمیٹی کے ذریئے سے علماء کے سپرد کر دیا۔رؤیت ہلال کے قیام کے بعدیہ معاملہ نہایت خوش اسلوبی سے چل رہا ہےکمیٹی کے فیصلے میں بعض دفعہ تاخیر ہوجاتی یا اس کا فیصلہ ہدف تنقید بنتا ہے ، تو اس کی وجہ صاف ظاہرھے کہ یا تو حکومت کے ناقص انتظامات تاخیر کا سبب بنتے ہیں یا ناقص اطلاعات اس کا باعث بنتی ہیں ۔ اصل ضرورت ان وجوہات کا خاتمہ ہے جن سے تاخیر ہوتی ہے یا فیصلہ ہدف تنقید بنتا ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ رؤیت ہلال کمیٹی کا وجود تحلیل کردینا چاہیے جس کا کوئی قصورنہیں ، کیونکہ کمیٹی کا کام صرف چاند دیکھنا نہیں ہے بلکہ’’ چاند دیکھے جانے یا نہ دیکھے جانے کا فیصلہ کرنا ہے۔‘‘ اور کمیٹی اپنا یہ کام یعنی رؤیت کا فیصلہ کرنے میں دستیاب وسائل کی حد تک اپنی ممکنہ مساعی بروئے کار لاتی ہے ، اس میں بالعموم کوتاہی نہیں کرتی۔
کمیٹی کی بہتر کارکردگی کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت
اس تاخیر کے خاتمے یا غلط فیصلے کے ازالے کے لئے مزید چند باتوں کا اہتمام ضروری ہے تاکہ کمیٹی کی راہ میں جو مشکلات ہیں ،وہ دور ہوں اور اس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جاسکے اور یہ دو اقدامات ہیں جو حسب ذیل ہیں :
٭ ایک یہ کہ اگر مصدقہ اطلاعات ایسی ملیں جن سے کمیٹی کا فیصلہ غلط ثابت ہوتا ہو تو ایسا انتظام ہونا چاہئے