کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 23
یعنی روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا فیصلہ کرنا ہوگا ۔ اگروہاں کی رؤیت پر اس کے روزے پورے 29یا 30 ہوجائیں تو فبھااور اگر 31 ہو جاتے ہیں تو ایک روزہ نفلی ہو جائے گا ۔لیکن وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ اس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہوگا اور 28 ہوں گے تو ایک روزہ عیدالفطر کے بعد رکھنا ہوگا کیونکہ حکم ہے : ﴿ اَلصَّوم یَومُ تَصُومُونَ، وَالفِطرُ یَومَ تُفطِرُونَ، وَالاضحی یَومَ تضحُونَ ﴾ ’’ روزے کا دن وہ ہے جس دن تم روزہ رکھو اور روزہ افطار (عید )کرنے کا وہ دن ہے جس دن تم افطار (عید) کرو اورعیدالاضحی کا وہ دن ہے جس دن تم قربانیاں کرو۔‘‘ [1] اس حدیث میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور مسلمانوں سے مراد اپنے اپنے علاقے (یا ایک متحدالمطالع ملک)کے مسلمان ہیں ، اس میں ایک علاقے کی حد تک مسلمانوں کو اجتماعیت کی تاکید ہے جس سے مسئلہ زیر بحث کی تائید ہوتی ہے ۔ کچھ رؤیت ہلال کمیٹی اور اس کی پیش کردہ تجاویز کے بارے میں ا ب آخر میں ہم دو امور پرمزید گفتگو کرنا مناسب سمجھتے ہیں : 1۔وقتاً فوقتاً مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلوں اور طریقہ کار پر تنقید ہوتی رہتی ہے ، اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا جواز ہے یا نہیں ؟ 2۔رؤیت ہلال کمیٹی کو مزید بہتر کس طرح بنایا جاسکتا ہے اور اس کے لئے کیا مزید اقدامات کئے جانے چاہئیں ؟ بعض حلقوں ی طرف سے بلکہ چند سال قبل خود وزارت مذہبی امور کی طرف سے یہ تجویزمنظر عام پر آئی تھی کہ رؤیت ہلال کمیٹی کا وجود ختم کردیا جائے اور یہ معاملہ خود وزارت مذہبی امور سنبھال لے اور وہی علماء کے فیصلے کے بغیر رؤیت یا عدم رؤیت کا اعلان کرے ، البتہ ایک اطلاعاتی مرکز قائم کیا جائے جس میں تمام جدید سائنسی آلات اور سہولیات موجود ہوں ۔ وزارت مذہبی امور اس کی مدد سے چاند دیکھنے او ر اس کا فیصلہ کرنے کا اہتمام کرے۔ 3۔سعودی عرب کو حرمین مقدسین کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں عزت و احترام کا ایک خاص مقام حاصل ہے ، پاکستان میں اس کی رؤیت اور فیصلے کو بنیاد بنا لیا جائے اور اس کے مطابق ہی یہاں رمضان کے آغاز کا اور عیدین منانے کا اہتمام کیا جائے ۔
[1] جامع الترمذی ، الصوم، باب ماجاء أن الصوم یوم تصومون ۔۔۔۔حدیث 697