کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 19
نصوص کی روُ سے یہ دوسری رائے راجح ہے ۔ واللہ اعلم۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں : ’’ تَرِا ءی النّاسُ الْھِلَالَ فَاخْبَرْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم، أنی رأیتہ فَصَامَ وَ أمَرَ النّاسَ بِصِیَامِہِ ‘‘ ’’لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی (لیکن میرے سوا کسی کو نظر نہیں آیا )چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔‘‘[1] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رمضان المبارک کے لئے ایک عادل مسلمان کی گواہی کافی ہے ۔امام ابوداؤد نے بھی جو باب باندھا ہے اس کا ترجمہ بھی یہ ہے کہ : ’’رمضان کے چاند کےاثبات کے لئے ایک شخص کی گواہی کا بیان۔‘‘ اور اس کے تحت مذکورہ حدیث بیان کی ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ اور اس باب سے پہلے امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے ۔’’باب شھادۃ رجلین علیٰ رؤیۃ ھلال شوال‘‘ شوال کے چاند کے اثبات کے لئے دو آدمیوں کی گواہی کا بیان‘‘ اور اس کے تحت امیر مکہ حارث بن حاطب کا یہ واقعہ بیان کیا ہے: ’’ ان امیر مکہ خطب ثم قال: عھد الینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أن ننسک للرؤیتہ، فان لم نرہ و شھد شاھداعدل نسکنا بشھادتھما‘‘ ’’امیر مکہ نے خطاب کیا اور اس میں اس نے یہ بھی کہا : رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم چاند یکھ کر حج کے ارکان ادا کریں ۔ اگر ہم خود نہ دیکھ سکیں اور دو عادل گواہ گواہی دے دیں تو ہم ان کی گواہی پر حج کر لیں ۔‘‘ اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ امیر مکہ نے یہ بھی کہا کہ’’ اس مجلس میں بلا شبہ ایسی شخصیت موجود ہے جواللہ اور اس کے رسول کے متعلق مجھ سے زیادہ باخبر ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر انہوں نے اس شخصیت کی طرف اشارہ کیا۔یہ شخصیت حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما کی تھی،ان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’بذٰلَکَ أمَرَنَا رسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اسی بات کا حکم دیا ہے ۔‘‘
[1] سنن ابی داؤد ،الصیام ، باب فی شھادت الواحدعلٰی رؤیت ھلال رمضان، حدیث 2340۔