کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 18
میں واقع ہوں تو وہ اس کی رؤیت پر اعتماد کرسکتےہیں ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے، چنانچہ ایک سعودی عالم و مفتی شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن الجبرین رحمہ اللہ (متوفی جولائی 2009ء) تحریر فرماتے ہیں : ’’شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی رائے یہ ہے کہ جن ممالک میں چاند دیکھا گیا اور جو ممالک ان سے آگےہیں ، یعنی مغرب کی جانب ہوں ۔ ان سب پر روزہ رکھنا فرض ہوگااور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب کسی ایک ملک میں چاند دیکھا گیا ہو تو ضروری ہے کہ اس کے بعد والے ممالک میں بھی چاند نظر آئے گا ، اس لیے کہ چاند سورج کے بعد غروب ہوتا ہے اور جیسے جیسے اس میں تاخیر ہوگی چاند سورج سے دو ر ہوتا چلا جائیگا اور زیادہ واضح اور ظاہر ہوتا چلا جائیگا ۔مثال کے طور پر اگر بحرین میں چاند دیکھا گیا تو ان ممالک کے لوگوں پر بھی روزہ رکھنا واجب ہو جائیگا جو اسکےبعد جیسا کہ نجد ، حجاز ، مصر اور مغرب (مراکش وغیرہ )ہیں مگر جو ممالک بحریں سے پہلے واقع ہیں ، مثلاً : ہندوستان ، سندھ اور ماوراء نہر (روس کے بالائی علاقے )کے ممالک ، ان ملکوں کے لوگوں پر روزہ واجب نہیں ہوگا ۔ ‘‘[1]
امام ابن تیمیہ کی رائے پر مبنی اس اقتباس میں مثال دے کر واضح کردیا گیا ہے کہ اس طرح کے ممالک کا مطلع ایک ہوسکتاہے اور وہاں سب ممالک کسی ایک ملک کی رؤیت پر رمضان،شوال وغیرہ کا آغاز کر سکتے ہیں ۔
رؤیت کے اثبات کے لیےکتنے گواہ ضروی ہیں ؟
احادیث میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر ہی افطار یعنی عید کرنے کا حکم ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟کیا ہر ہر مسلمان کا دیکھنا ضروری ہے یا کتنے مسلمانوں کا دیکھنا کافی ہے ؟
یہ بات تو واضح کی جاچکی ہے کہ جن ممالک کے مطالع ایک ہیں یا ان میں زیادہ فرق نہیں ہے ، وہ ایک دوسرے کی رؤیت کی بنیاد پر رمضان و شوال وغیرہ کا آغاز کرسکتے ہیں ۔
اب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ رؤیت کا اثبات کس طرح ہوگا ؟ظاہر بات ہے کہ ہر شخص کو تو دیکھنے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے،اس لئے علماء کے ایک گروہ کی رائے تو یہ ہے کہ ایک عادل مسلمان کی گواہی سے رؤیت کا اثبات ہو جائیگا امام شوکانی اور صاحبِ ’’فقہ السنہ‘‘ وغیرہ نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے ۔دوسرے علماء کی رائے ہے کہ رمضان المبارک کے لئے ایک عادل مسلمان کی گواہی اور رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں (شوال ، ذی الحجہ وغیرہ )کے لیے دو عادل گواہوں کی گواہی ضروی ہے ۔شرعی
[1] فتاویٰ الصیام، ص:72، طبع دارالسلام