کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 17
ہی افطار کرو ، یعنی روزہ رکھنا چھوڑ دو ،اسی حدیث میں آگے یہ الفاظ ہیں : ’’ فان غم علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین ‘‘ اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے30 دن پورے کرو ۔‘‘[1]
گویا چاند کا دیکھا جاناضروری ہے کیونکہ مطلع ابر آلود ہونے کی صورت میں یہ امکان بھی یقیناً موجود ہے کہ چاند موجود ہو لیکن نظر نہ آسکے لیکن امکان کو اہمیت نہیں دی گئی بلکہ رؤیت ہی کو اصل قرار دیا گیا ۔ اس سے اسی امر کی تائید ہوتی ہے کہ محض فلکیات کی بنیاد پرایسا کلینڈر بنان جائز نہیں ہے ۔جس کی بنیاد پر پورا عالمِ اسلام ایک ہی دن رمضان ، شوال اور ذی الحجہ وغیرہ کا آغاز کرے کیونکہ اس حسابی کلینڈر کی بنیاد امکان، تخمینہ اور غیر یقینی علم پر ہوگی جبکہ حکم رؤیت (دیکھنے )کا اعتبار کرنے کا ہے۔
بناء بریں عیدین وغیرہ کسی نہ کسی اعتبار رسے ملی تہوار ضرو ہیں لیکن اصلاً یہ عبادات ہیں ،جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں جو سب سےاہم عبادت ہے لیکن کسی کے ذھن میں یہ نہیں آتا کہ اس میں ایسی اجتماعیت ہونی چاہیے کہ ایک ہی وقت میں پورےعالم اسلام میں ہر نماز پڑھی جائے کیونکہ مطالع کےاختلاف کی وجہ سےیہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح سے رمضان اور عیدین وغیرہ کا معاملہ ہے ، مطالع کے اختلاف کی وجہ سے پورے عالم اسلام کے لئے ایک کلینڈر نہیں بنایا جاسکتا ۔
عہد صحابہ کے اس واقعے سے بھی ،جو پہلے حضرت کریب رحمہ اللہ کا گذرچکا ہے ، اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ مطالع مختلف ہونے کی صورت میں اپنے اپنے علاقے ہی کی رؤیت ضروری ہوگی،یا زیادہ سے زیادہ ایک ملک کے لئے کافی ہوگی، بشرطیکہ اس کے مختلف صوبوں اور حصوں کے مطالع میں زیادہ اختلاف نہ ہو ، کسی دور دراز کے ملک کی رؤیت ، جس کا مطلع اور نظام الاوقات مختلف ہو،دوسرے علاقوں کے لئے قابل اعتبار نہیں ہوگی ۔ یہ واقعہ صحیح مسلم میں ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب مطالع میں زیادہ اختلاف ہو تو ایک کی رؤیت دوسرے کے لیے معتبر نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے شام کی رؤیت کو اہل مدینہ کے لئے ناکافی سمجھا اور اس امر کا انتساب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف فرمایا۔
جن ممالک کے مطالع مختلف نہ ہوں ، وہ ایک دوسرے کی رؤیت کا اعتبار کرسکتے ہیں ۔
البتہ ایسے قریبی ممالک جن کے مطالع میں زیادہ اختلاف نہ ہو اور وہ رؤیت والےملک کے مغرب
[1] صحیح البخاری ،الصوم ، حدیث 1909