کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 16
اول:یہ کہ یہ کمیٹی تمام مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل ہو ۔ دوم:سرکاری مداخلت سے آزاد ہو۔ سوم:اگر دوسرے روز خیبرمیں بھی (جب کہ دوسرے حصوں میں 29اور سرحد میں یکم تاریخ ہو ) چاند افق پر نظر نہ آئے تو واضح طور پر اپنی غلطی کا اعتراف و اعلان کرے اور آئندہ کے لئے مکمل طورمرکزی کمیٹی کے فیصلے کی پابند ی کا اہتمام کرے۔ راقم کو امید ہے کہ ایک دو مرتبہ اس طرح کرنے سے آئندہ کے لئے ایک واضح صورت متعین ہو جائےگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اہل خیبر کے معاملے کو خیبر کے علماء ہی کے سپرد کردیا جائے، وہ جس طرح چاہیں فیصلہ کریں اور اس پر عمل کریں جیسا کہ سالہاسال سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے اور اہل خیبر اکثر اپنے صوبےکی رؤیت اور اپنے لوگوں کی شہادتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ملک کے دوسرے حصوں سے الگ ہی رمضان اور عید کا اہتما م کرتے ہیں ، ایسا کرنے کی بھی شرعاً پوری گنجائش ہے۔ اثبات ہلال کے لئے کلینڈر پر اعتمادنہیں کیا جاسکتا ہے مذکورہ وضاحت سے اس امر پر بھی روشنی پڑ جاتی ہے کہ کلینڈر پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ بعض لوگ وحدت و یکجہتی کے نقطہ نظر سے پورے عالم اسلام کے لئے ایک اسلامی کیلنڈر کی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ یہ تجویز نیک نیتی پر مبنی ہوسکتی ہے لیکن یہ نصوص ِ شریعت سے متصادم ہے کیونکہ اولاً روزہ یا عیدالفطر کا اہتمام ایک عبادت ہے ۔ یہ دوسری قوموں کی طرح کے صرف ایک تہوار نہیں ہیں بلکہ اصلاً یہ عبادات ہیں تاہم ان میں اجتماعیت کا اہتمام کیا گیا ہے ۔لیکن یہ اجتماعیت اسی حد تک ممکن ہوگی جس حد تک نصوص شریعت اجازت دیں گی ، جیسے ایک علاقے کے لوگ ایک ہی وقت میں روزے کا آغاز یا اختتام کریں ، عیدین کی نماز کھلے گراؤنڈ میں ادا کریں ، وغیرہ۔لیکن اس اجتماعیت کو اس حد تک نہیں بڑھایا جاسکتاکہ پورے عالم اسلام کو یا کسی وسیع ایک ملک کو کسی ایک علاقے کی رؤیت کا پابند کردیا جائے یا ایک حسابی کلینڈر بنادیا جائے جس میں فلکیات کے اعتبار سے رمضان ، شوال اورذی الحجہ اور دیگر اسلامی مہینوں کے آغاز کا تعین کردیا جائے اور پورے عالم اسلام کو اس کے مطابق مہینوں کے آغاز و اختتام کا پابند بنادیا جائے ۔ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح اجتماعی طور پرعیدین وغیرہ کو بطور تہوار منانے کے جذبے کی توسیع ہو جائے گی لیکن ایسا کرنا نصوص شریعت سے متصادم ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :’’ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر