کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 14
نہیں ہوا ۔یاسورج نکل چکا ہو لیکن دعویٰ کرنے والے دعویٰ کریں کہ سورج ابھی نہیں نکلا ۔ ایسی صورت میں یقیناً رؤیت ہلال کا دعویٰ کرنے والوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ اور شہادت کے شرعی تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے ، چاہے اس کی روشنی میں پہلا فیصلہ غلط قرار پائے ، اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے ۔ اہل خیبر(سرحد) کا معاملہ؟ یہ ایک نہایت قابل غور معاملہ ہے کہ ہر سال مسئلہ صرف صوبہ خیبرپختون خواہ کے لوگوں کی وجہ سے اختلاف و افتراق کا باعث بنتا ہے ۔ایسا کیوں ہے؟۔۔۔۔دوسرے صوبوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ اس کی وجہ بعض لوگ علمائے اہل خیبر کا دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ دین دار ہونا بتلاتے ہیں ۔لیکن دوسری طرف بہت سے ذمہ دار حضرات یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں بعض علاقے ایسے ہیں کہ وہ یوں ہی شور مچا دیتے ہیں:’’ چاند ہوگیا اور کل عید ہے یا روزہ ہے‘‘ راقم جب مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا رکن تھا تو صوبہ خیبر کے دو نمائندے اس میں شامل تھے، وہ دونوں اختلاف مسلک کے باوجود اس بات پر متفق تھے کہ رؤیت ہلال کے بارے میں صوبہ خیبر کے لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔وہ ویسے ہی چاند ہونے کا اعلان کردیتے ہیں ۔ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے سابقہ چیئر مین مولانا عبدللہ صاحب نے ایک مرتبہ خود اس امر کا ذاتی مشاہدہ حاصل کیا تھا ۔ان کا بیان ہے 29شعبان 1418ھ کو، جبکہ سرحد میں یکم رمضان تھی اور وہاں 28 شعبان کو 30 آدمیوں نے چاند دیکھنے کی شہادت دی تھی اور اسی بناپروہاں مقامی کمیٹی نے روزے رکھنے کا اعلان کیا تھا ۔میں نےوہاں کے بعض علماء سے کہا کہ آج آپ کےحساب سے رمضان کی دوسری رات ہے اور آج چاند واضح اور صاف نظر آنا چاہیے ۔جبکہ فلکیات والوں کا کہنا یہ تھا کہ آج چاند بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں ممکن ہے نظر آجائے ، اس کے علاوہ کہیں نظرآنے کا امکان نہیں ہے ، چنانچہ میں ان علمائے سرحد کو لے کر ایک پہاڑپرچڑھ گیا ،ہمارے ساتھ سینکڑوں آدمی اور بھی تھے ، لیکن بسیار کوشش کے باوجود چاند نظرنہ آیا ۔بلکہ پورے سرحد سمیت کہیں بھی نظر نہ آیا اور تھوڑی دیر بعد صرف بلوچستان سے چاند دیکھے جانے کی اطلاع ملی ، جسکی بنیاد پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے چاند کے ہونےکا فیصلہ اوراعلان کیا۔اس ایک واقعے نے دونوں باتوں کا فیصلہ کردیا ۔