کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 12
مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ ، منعقدہ 4،3، مئی1967ء کومختلف مکاتب فکر کے علماء اور نمائندہ شخصیتوں نے مل کر اس مسئلہ کی بابت جو فیصلہ کیا تھا ، وہ حسب ذیل ہے: 1۔نفس الامر میں پوری دنیا کا مطلع ایک نہیں بلکہ اختلاف مطالع مسلم ہے۔یہ ایک واقعاتی چیزہے اس میں فقہائے کرام کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ 2۔البتہ فقہاء اس باب میں مختلف ہیں کہ صوم اور افطار صوم کے باب میں یہ اختلاف مطلع معتبر ہے یا نہیں ؟ محققین احناف اور علمائے امت کی تصریحات اور ان کے دلائل کی روشنی میں مجلس کی متفقہ رائے ہے کہ’’بلادبعیدہ میں اس باب میں بھی اختلاف مطلع معتبرہے۔‘‘ 3۔بلاد بعیدہ سے مراد یہ ہے کہ ان میں باہم اس قدر دوری واقع ہوکہ عادتاً ان کی رؤیت میں ایک د ن کا فرق ہوتا ہے۔ایک شہر میں ایک دن پہلے چاند نظر آتا ہے اور دوسرے میں ایک دن کے بعد ۔ ان بلاد بعیدہ میں اگر ایک کی رؤیت دوسرے کے لئے لازم کردی جائےتو مہینہ کسی جگہ 28 دن کا رہ جائےگا اور کسی جگہ 30 دن کا قرار پائے گا ۔ حضرت عبداللہ ابن عباسص کی روایت سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ 4۔بلادقریبہ وہ شہر ہیں جن کی رؤیت میں عادتاً ایک دن کا فرق نہیں پڑتا ، ایک ماہ کی مسافت کی دوری جو تقریباً 500یا 600میل ہوتی ہے کو بلاد بعید قرار دیتے ہیں اور اس سے کم کو بلاد قریبہ ۔مجلس اس سلسلے میں ایک ایسے چارٹ کی ضرورت سمجھی ہے ، جس سے معلوم ہوجائے کہ مطلع کنتی مسافت پر بدلتا ہے اور کن کن ملکوں کا مطلع ایک ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان کےبیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں مثلاً: نیپال وغیرہ کا مطلع ایک ہے ۔علمائے ہند و پاک کا عمل ہمیشہ اسی پر رہاہے اور غالباً تجربہ سے بھی یہی ثابت ہے۔ ان ملکوں کے شہروں میں اس قدر بعد مسافت نہیں ہے کہ مہینے میں ایک دن کا فرق پڑتاہو۔ اس بنیاد پران دونوں ملکوں میں جہاں بھی چاند دیکھا جائے ، شرعی ثبوت کے بعداس کاماننا ان دونوں ملکوں کے تمام اہل شہر پر لازم ہوگا ۔ 5۔مصر اور حجاز جیسے دور دراز ملکوں کا مطلع ہندو پاک کے مطلع سے علیحدہ ہے ۔یہاں کی رؤیت ان ملکوں کے لئے اور ان ملکوں کی رؤیت یہاں والوں کے لئے ہر حالت میں لازم اور قبول نہیں ہے،اس لئےان میں اور ہند و پاک میں اتنی دوری ہے کہ عموماً ایک دن کا فرق ان میں واقع ہوجاتا ہے اور بعض اوقات