کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 11
ضرورت نہیں ۔ محدث علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے کنز الدقائق کی شرح ’’تبیین الحقائق ‘‘ میں اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے ۔انھوں نےاختلاف مطالع کی بحث میں فقہائے احناف کا اختلاف نقل کرنے کے بعد خودجو فیصلہ کیا ہے ،وہ یہ ہے : ’’الأشبہ أن یعتبر لان کل قوم مخاطبو ن بما عندھم وانفصال الھلال عن شعا ع الشمس یختلف باختلاف المطالع کما فی دخول وقت الصلاۃ وخروجہ یختلف باختلاف الاقطار ۔‘‘ ’’زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہے ،۔اس لیے کہ ہر جماعت اسی کی مخاطب ہوتی ہے جو اس کو درپیش ہو اور چاند کا سورج کی کرنوں سے خالی ہونا مطالع کے اختلاف سے مختلف ہوتا رہتاہے، جیسے نمازوں کے ابتدائی اور انتہائی اوقات علاقائی اختلاف کی بناء پر مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔‘‘ پھرا س موضوع پر مفصل بحث کر نے کے بعد مولانا علامہ لکھنوی نے جو جچاتلا فیصلہ کیا ہے ، وہ انھی کےالفاظ میں نقل کیا جاتا ہے۔ ’’ اصح المذاہب عقلاو نقلا ہمیں است کہ ہر دو بلدہ کہ فیما بین آنہا مسافتے باشدکہ دراں اختلاف مطالع می شودو تقدیر ش مسافت یک ماہ است ، دیریں صورت حکم رؤیت یک بلدہ بہ بلدہ دیگر نخواہد شدودر بلادِ متقاربہ کہ مسافت کم از کم یک ماہ داشتہ باشند حکم رؤیت بلدہ بہ بلدہ دیگر لازم خواہدشد۔‘‘[1] ’’عقل و نقل ہر دولحا ظ سے صحیح مسلک یہی ہے کہ ایسے دو شہر جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ ان کے مطلع بدل جائیں جس کا اندازہ ایک ماہ کی مسافت سے کیا جاتا ہے۔اس میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے معتبر نہیں ہونی چاہئے اور قریبی شہروں میں جن کے مابین ایک ماہ سے کم کی مسافت ہو ایک شہر میں رؤیت دوسرے شہر کے لئے لازم اور ضروری ہوگی ۔‘‘ راقم الحروف کے خیال میں یہ بات بہت معتدل، متوازن اور قرین عقل ہے ، البتہ اختلاف مطالع کی حدیں متعین کرنے میں ’’ایک ماہ کی مسافت‘‘ کی قید کی بجائے جدید ماہرین فلکیات کے حساب اور ان کی رائے پر اعتماد کیا جانازیادہ مناسب ہوگا۔
[1] مجموعۃ الفاویٰ علیٰ ھامش خلاصۃ الفاویٰ ، جلد1، ص : 256،255