کتاب: البیان شمارہ 11 - صفحہ 10
بعض حضرات کی رائے ہے کہ اختلاف مطالع کی وجہ سے رؤیت ہلال کے ثبوت میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے۔ تجریدالقدوری کے مصنف نے اسی کو ترجیح دی ہے جیسا کہ جب کچھ لوگوں کے یہان آفتاب ڈھل جائےاور دوسروں کے یہاں غروب ہو جائے توپہلے لوگوں پر ظہر ہے نہ کہ مغرب اس لئے کہ ان کے حق میں مغرب کا سبب محقق نہیں ہوا ہے۔‘‘ نیز اسی کے حاشیہ پر علامہ طحطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وھو الا شبہ لان انفصال الہلال من شعاع الشمس یختلف باختلاف الاقطار کمافی دخول الوقت وخروجہ ، وہذا مثبت فی علم الافلاک والھیثاۃ واقل مااختلف المطالع المطالع مسیرۃ شہرکما فی الجواہر‘‘ ’’یہی رائے زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ چاند کا سورج کی کرنوں سے خالی ہونا علاقوں کے بدلنے سے بدلتارہتا ہے جیسا کہ اوقات( نماز )کی آمد ورفت میں ۔اور یہ فلکیات اور علم ہیئت کے مطابق ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ، نیز کم سے کم جس سے اختلاف مطالع واقع ہوتا ہے ، وہ ایک ماہ کی مسافت ہے جیسا کہ ’’جواہر‘‘ نامی کتاب میں ہے۔‘‘ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: ’’اھل بلدۃ إذا رأو االھلال ھل یلزم فی حق کل بلدۃ ؟ اختلف فیہ فمنھم من قال لا یلزم... وفی القدوری إن کا ن بین البلدتین تفاوت لا ختلف بہ المطالع یلزمہ‘‘ ’’ایک شہر والے جب چاند دیکھ لیں تو کیا تمام شہر والوں کے حق میں رؤیت لازم ہو جائیگی؟ اس میں اختلاف ہے بعض لوگوں کی رائے ہے : لازم نہیں ہوگی ۔۔۔۔ اور قدوری میں ہے کہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا تفاوت ہو کہ مطلع تبدیل نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں رؤیت لازم ہوگی۔‘‘ صاحب ہدایہ اپنی کتاب’’مختارت النوازل ‘‘ میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں : ’’اھل بلدۃ صاموا تسعۃ وعشرین یوما بالرؤیۃ واھل بلدۃ اخرٰی صاموا ثلاثین بالرؤیۃ فعلی الاولین قضاء یوم إذا لم یختلف المطالع بینھما وأما إذا اختلفت لا یجب القضاء ‘‘ ’’ ایک شہر والوں نے رؤیت ہلال کے بعد 29روزے رکھے اور دوسرے شہروالوں نے چاند دیکھنے ہی کی بناء پر 30 روزے رکھے تو اگر ان شہروں میں مطلع کا اختلاف نہ ہو تو 29 روزے رکھنے والو ں کو ایک دن کی قضا ء کرنی ہوگی ۔اور اگر دونوں شہروں کا مطلع جدا نہ ہوگا توقضاء کی